|
جرمنی نے بدھ کو کہا ہے کہ وہ دوسرے کئی ملکوں کی طرح غزہ میں فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے ساتھ تعاون کو دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس نے یہ اعلان امدادی ادارے کی شفافیت سے متعلق آزاد جائزے کی اشاعت کے بعد کیا ہے۔
عرب لیگ کے سربراہ نے رپورٹ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کے الزامات بے بنیاد ہیں اور اس منظم مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد امدادی ادارے کے اختیار (مینڈیٹ) کو ختم کرنا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ یو این ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کے سنیکڑوں کارکن فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کے رکن ہیں، اور اس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ رپورٹ میں مسئلے کی اہمیت کو گھٹا دیا گیا ہے۔
اسرائیل کے ان الزامات کے بعد امریکہ سمیت تقریباً ایک درجن ملکوں نے فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے اس ادارے کی امداد معطل کر دی تھی، جس پر اقوام متحدہ نے انتباہ کیا تھا کہ لاکھوں فلسطینوں کو قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جنوری میں اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے کچھ اہل کار 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں میں شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے نے اس کے بعد اپنے کچھ اہل کاروں کو برطرف کر کے تحقیقات شروع کر دی تھی۔
اسرائیل نے 6 صفحات پر مبنی ایک دستاویز میں الزام لگایا تھا کہ ادارے کے 190 اہل کار حماس اور اسلامک جہاد کے لیے کام کرتے ہیں اور اس کے ایک درجن کے لگ بھگ کارکن، 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں ملوث تھے۔
اسرائیل نے یہ الزام بھی عائد کیا تھاکہ حماس اور عسکری گروپ اس ایجنسی کی اسپتالوں جیسی تنصیبات کو اسرائیل کے خلاف فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یواین آر ڈبلیو اے کیا ہے؟
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی، یو این آر ڈبلیو اے کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد اسرائیل کے قیام کے وقت بے گھر ہونے والے اندازاً سات لاکھ فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنا تھا۔
1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب بڑھ کر 60 لاکھ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جانے کا حق رکھتے ہیں۔
یو این آر ڈبلیو اے، پناہ گزین کیمپوں میں اسکول، صحت کے مراکز، انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں اور امدادی پروگرام چلاتی ہے۔ غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام اور اردن میں قائم یہ پناہ گزیں کیمپ انتہائی گنجان آباد ہیں جہاں اپنے پروگرام چلانے کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی نے ہزاروں لوگوں کو ملازم رکھا ہوا ہے۔
اسرائیل حماس جنگ کے نتیجے میں غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے 85 فی صد اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکی ہےاور ان میں سے 10 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینی یو این آر ڈبلیو اے کے اسکولوں اور دیگر تنصیبات میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز ہی اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی شمالی سرحد سے غزہ تک اپنے دو ریزرو بریگیڈ دفاعی اور حکمت عملی کے مقاصد کے لیے دوبارہ تعینات کر رہی ہے، جس کا مقصد رفح میں حملے کی تیاری کرنا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں رفح اب حماس کا آخری گڑھ رہ گیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباریوں اور زمینی حملوں سے بچنے کے لیے علاقے کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ نے اب رفح میں پناہ لے رکھی ہے اور ان کی اکثریت عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں۔
غزہ کے لیے امریکی امداد
منگل کے روز امریکی سینیٹ نے 26 ارب ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری دی جس میں سے غزہ میں انسانی امداد کے لیے تقریباً 9 ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ، 7 اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر حماس کے ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 250 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
تقریباً سات مہینوں سے جاری اس جنگ میں غزہ کی زیادہ تر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، آبادی کا ایک بڑا حصہ پناہ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ علاقے میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتیں 34 ہزار سے بڑھ چکی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم