افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں جمہوریت کا فروغ امریکی اتحادیوں، جن میں امریکی فوجی شامل ہیں، کا مرہونِ منت ہے، جس کے لیے اُنھوں نے اُنہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ افغانستان کا عوام آپ کے فوجیوں کی بہادری اور افغانستان کو آزاد رکھنے کے لیے امریکیوں کی بے شمار قربانیوں کا معترف ہے۔
بقول اُن کے،’آپ کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے‘۔
مسٹر اشرف غنی کا دورہٴامریکہ اور کانگریس کو خطاب، نمایاں عزت افزائی کا غماز ہے جو واشنگٹن آمد پر کسی غیر ملکی رہنما کو دی جاتی ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی ایک کوشش ہے، جو تقریباً 14 برس کی لڑائی کے دوران کشیدہ ہوگئے تھے۔
امریکی صدر براک اوباما اور مسٹر اشرف غنی نے منگل کو ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کیا۔ افغان صدر نے کہا کہ یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ اُن کا ملک باغیوں کے حملوں سے محفوظ رہے، ابھی ’بہت کام ‘باقی ہے۔
مسٹر اوباما نے اعلان کیا کہ اس وقت افغانستان میں خدمات بجا لانے والے 9800 فوجیوں کی تعداد کو فی الحال نصف نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ پہلے سوچا جا رہا تھا۔ برعکس اس کے، فوج کی یہ تعداد کم از کم اس سال کے آخر تک جاری رہے گی۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ، ’افغانستان اب بھی انتہائی خطرناک مقام ہے، اور باغی اب بھی حملے کرتے رہتے ہیں، جن میں شہریوں کے خلاف بزدلانہ خودکش بم حملے بھی شامل ہیں‘۔
اوباما انتظامیہ نے کانگریس سے کہا ہے کہ ’افغان نیشنل سکیورٹی فورس‘ کی مالی اعانت یقینی بنائی جائے، تاکہ اس کی موجودہ سطح، کم از کم 2016ء کے اواخر تک، 352000 کی سطح تک قائم رکھی جاسکے۔
امریکی مالی سال 2017ء کا بجٹ، یکم اکتوبر، 2016ء سے شروع ہوتا ہے۔
امریکہ افغانستان میں لڑاکا کارروائی کا مشن ختم کر چکا ہے، جہاں کبھی اُس کی 130000 فوج تعینات تھی۔ تاہم، مسٹر اشرف غنی نے امریکہ سے التجا کی کہ فوج کے انخلا کے معاملے میں دھیرج سے کام لیا جائے، جن کی کچھ تعداد اب بھی وہیں ہے، تاکہ افغان فوجیوں کو تربیت اور مشاورت فراہم کی جاتی رہے۔
باوجود اِس بات کے اِس سال فوج کی سطح میں کمی لانے میں تیزی نہیں دکھائی جا رہی ہے، مسٹر اوباما اس عزم پر قائم ہیں کہ 2017ء کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 1000 سے بھی کم ہو۔
مسٹر اشرف غنی نے کہا کہ اُن کی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ ’اصلاحات کے عمل میں تیزی لائی جائے، افغان قومی سلامتی کی افواج کی قیادت بہتر ہاتھوں میں رہے، اُسے بہتر اسلحہ میسر ہو، اُس کی بہتر تربیت جاری رہے اور وہ اپنے بنیادی مشن پر دھیان مرکوز رکھے‘۔
اُنھوں نےافغان قیادت میں امن عمل جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت اُن عناصر کے ساتھ صلح نہیں کرے گی جو محض افغانستان کا نام ’عالمی دہشت گردی کی پناہ گاہ کے طور پر‘ استعمال کرنے کے متمنی ہیں۔
منگل ہی کے روز، افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کی سروس ’ٹی وی آشنا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، کہا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے ماحول تیار ہے، اور یہ کہ حکومت پُرامید ہے کہ بات چیت ’آئندہ کچھ دِنوں میں‘ شروع ہوگی۔