وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے افغان مہاجرین کی پاکستان سے وطن واپسی کے عمل کی رفتار تیز کرنے کے لیے دیگر ممالک کے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری ان لاکھوں ’’مہاجرین کو بھول چکی ہے‘‘۔
اُنھوں نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرس (Antonio Guterres) سے جمعرات کو ملاقات میں کیا جو پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔
بات چیت کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ مسٹر گیلانی نے افغان مہاجرین کی موجودگی کو بلواسطہ طور پر ملک میں تشدد کے واقعات سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ اوسطاً 40 ہزار افراد پاک افغان سرحد عبور کرتے ہیں اور ایسی صورت حال میں یہ نشاندہی ناممکن ہے کہ اُن میں ’’کون سیاح ہے اور کون دہشت گرد‘‘۔
پاکستانی وزیرِ اعظم کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے یو این ایچ سی آر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اُن کا ادارہ عالمی برادری پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان میں سازگار حالات اور روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرنے کے لیے بھرپور سرمایہ کاری کی جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن علاقوں میں بہتر حالات پیدا کیے جائیں جہاں جا کر مہاجرین نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنی ہے تاکہ اُن کے ایک مرتبہ پھر پاکستان لوٹنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
انٹونیو گوٹیرس نے جمعرات کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور شوکت اللہ خان سے بھی ملاقات کی جس میں افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام اور اُن کی رضا کارانہ وطن واپسی سے متعلق اُمور زیر بحث آئے۔
شوکت اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے افغانستان میں امن و استحکام کا ہونا ناگزیر ہے۔ ’’جیسے ہی وہاں حالات بہتر ہونا شروع ہوتے ہیں وہ (مہاجرین) فوراً چلے جاتے ہیں۔‘‘
لیکن پاکستانی وزیر نے بتایا کہ 2011ء میں وطن واپس جانے والوں کی تعداد گزشتہ برسوں کی نسبت انتہائی کم رہی اور صرف 51 ہزار افراد افغانستان واپس گئے۔
’’ہمیں ایک اور مصیبت کا سامنا یہ ہے کہ ان کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے اس وجہ سے اگر 80 ہزار (واپس) جا رہے ہیں تو اُس ہی سال اُن کی آبادی میں 83 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد 17 لاکھ ہے، لیکن حکام کا ماننا ہے کہ ملک میں مزید تقریباً 15 لاکھ ایسے افغان بھی ہیں جن کے کوائف حکومت کے پاس موجود نہیں۔
پاکستان حالیہ دنوں میں بین الاقوامی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اور افغان حکومت پر زور دیتا آیا ہے کہ اس کے ہاں آباد لاکھوں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے، لیکن ساتھ ہی اس تاثر کی نفی بھی کی جاتی رہی ہے کہ افغان مہاجرین کو ملک سے زبردستی نکالنے کے لیے اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ افغانستان میں یو این ایچ سی آر کے نمائندے پیٹر نکلولیس نے افغان مہاجرین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے ملک میں روزگار کے بہتر مواقع نا ہونے کے باعث یہ دوبارہ پاکستان اور ایران واپس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اُدھر افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی جرمن ایلچی Michael Steiner نے جمعرات کو اسلام آباد میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کی جس میں پاکستان اور جرمنی کے تعلقات اور افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانوں کی قیادت میں طالبان سے کی جانے والے مصالحتی عمل کی مکمل حمایت کرے گا۔ پاکستان وزیر خارجہ نے ایک روز قبل افغانستان کے سرکاری دورے پر بھی اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مستحکم افغانستان ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین روزانہ مقامی صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں جب کہ روزگار کے متلاشی ہزاروں پاکستانیوں نے بھی حالیہ برسوں میں افغانستان کا رخ کیا ہے۔ حنا ربانی کھر نے دونوں حکومتوں کو باہمی تلخیاں اور اختلافات دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد کی دونوں جانب عام لوگوں کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔