واشنگٹن —
گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ پر ہونے والےدہشت گرد حملوں میں ملوث پانچ ملزمان منگل کو مقدمے کی ابتدائی سماعت کے دوران پیش نہیں ہوئے۔
پینٹاگان کے لیے’ وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار لوئی رمزیز اِس وقت کیوبا کے گوانتانامو بے میں امریکی بحریہ کے اڈے میں موجود ہیں۔ اپنی رپورٹ میں اُنھوں نے بتایا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو پایا آیا ملزمان نے منگل کی سماعت کابائیکاٹ کیا یا یہ کہ اُنھوں نے سماعت میں پیش نہ ہونے کے اپنے حق کا استعمال کیا۔
سماعت کے دوران ملزمان کے وکلاٴ نے درخواست پیش کی کہ اُنھیں کم از کم 48گھنٹے کی مہلت درکار ہےتاکہ وہ اپنے قید مؤکلوں کے حالات سے آگہی حاصل کرسکیں۔ اُنھوں نے اپنے مؤکلوں تک رسائی کی عدم دستیابی کی بھی شکایت کی۔
یہ درخواست ایسے میں سامنے آئی ہے جب ایک ہی روز قبل ایک مشتبہ دہشت گرد نے اپنے فوجی وکیل سے اپنا تعلق ختم کر دیا۔ قیدی نے شکایت کی تھی کہ اُن کا اپنے وکیلوں پر اعتماد نہیں اور اُن کے بقول، حکومت اُن کے دفاع کا حق چھین رہی ہے۔
سماعت کرنے والے ججوں کو بھی یہ سوالات درپیش ہیں آیا عدالتی کارروائی کس حد تک عوام کے لیے کھولی جانی چاہئیے۔
نامہ نگار اور گواہان اُس کمرے میں موجود نہیں ہوتےجہاں ملزمان حاضر ہوا کرتے ہیں۔ پیر کو کارروائی کے دوران وڈیو فیڈ غیر متوقع طور پرتقریباً تین منٹ کے لیے رُک گیا۔ جج نےمنگل کے روز اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف اُنہی کو یہ اختیار حاصل ہے آیا فیڈ لائن کو دوسرے کمرے تک کے لیے کھولا یا بند کیا جائے۔
امریکہ پر ہونے والےدہشت گرد حملوں کی سازش کے مبینہ سرغنے خالد شیخ محمد کے ساتھ دیگر چارمشتبہ دہشت گرد اِس مقدمے میں شامل ہیں۔ اُن پر 11برس سے زائد عرصہ قبل نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹراور پینٹاگان پر حملوں کا الزام ہے، جِن میں تقریباً 3000افراد ہلاک ہوئے۔
پینٹاگان کے لیے’ وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار لوئی رمزیز اِس وقت کیوبا کے گوانتانامو بے میں امریکی بحریہ کے اڈے میں موجود ہیں۔ اپنی رپورٹ میں اُنھوں نے بتایا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو پایا آیا ملزمان نے منگل کی سماعت کابائیکاٹ کیا یا یہ کہ اُنھوں نے سماعت میں پیش نہ ہونے کے اپنے حق کا استعمال کیا۔
سماعت کے دوران ملزمان کے وکلاٴ نے درخواست پیش کی کہ اُنھیں کم از کم 48گھنٹے کی مہلت درکار ہےتاکہ وہ اپنے قید مؤکلوں کے حالات سے آگہی حاصل کرسکیں۔ اُنھوں نے اپنے مؤکلوں تک رسائی کی عدم دستیابی کی بھی شکایت کی۔
یہ درخواست ایسے میں سامنے آئی ہے جب ایک ہی روز قبل ایک مشتبہ دہشت گرد نے اپنے فوجی وکیل سے اپنا تعلق ختم کر دیا۔ قیدی نے شکایت کی تھی کہ اُن کا اپنے وکیلوں پر اعتماد نہیں اور اُن کے بقول، حکومت اُن کے دفاع کا حق چھین رہی ہے۔
سماعت کرنے والے ججوں کو بھی یہ سوالات درپیش ہیں آیا عدالتی کارروائی کس حد تک عوام کے لیے کھولی جانی چاہئیے۔
نامہ نگار اور گواہان اُس کمرے میں موجود نہیں ہوتےجہاں ملزمان حاضر ہوا کرتے ہیں۔ پیر کو کارروائی کے دوران وڈیو فیڈ غیر متوقع طور پرتقریباً تین منٹ کے لیے رُک گیا۔ جج نےمنگل کے روز اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف اُنہی کو یہ اختیار حاصل ہے آیا فیڈ لائن کو دوسرے کمرے تک کے لیے کھولا یا بند کیا جائے۔
امریکہ پر ہونے والےدہشت گرد حملوں کی سازش کے مبینہ سرغنے خالد شیخ محمد کے ساتھ دیگر چارمشتبہ دہشت گرد اِس مقدمے میں شامل ہیں۔ اُن پر 11برس سے زائد عرصہ قبل نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹراور پینٹاگان پر حملوں کا الزام ہے، جِن میں تقریباً 3000افراد ہلاک ہوئے۔