دنیا بھرمیں آلودگی کے باعث ہونے والی سالانہ ہلاکتوں کی تعداد نوے لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان اموات میں تین چوتھائی ہلاکتیں صرف فضائی آلودگی کے باعث ہوئی ہیں۔
جریدے دی لانسیٹ پلانیٹری ہیلتھ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق آلودگی کے باعث ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں 2015ء سے لے کر 2019ء تک کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ پرانے زمانے کے گھریلو چولہے اور کچرے سے بھرے پانی سے ہونے والی آلودگی میں کمی آئی ہے، لیکن کاروں، ٹرکوں اور صنعتوں سے ہونے والی فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں 2020ء تک55 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آلودگی سے ہونے والی اموات خاص طور پر غریب ممالک میں بڑھ رہی ہیںَ، جبکہ امریکہ میں آلودگی سے ہونے والی اموات میں کمی آئی ہے۔ لیکن آلودہ فضا، پانی، سیسہ اور کام کی جگہ پر آلودگی ، اب بھی ایک سال میں ایک لاکھ چالیس ہزار امریکیوں کی جان لے رہی ہےجو کہ کسی بھی دوسری صنعتی قوم کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
جریدے دی لانسیٹ پلانیٹری ہیلتھ میں ایک نئی تحقیق کے مطابق آلودگی سے ہونے والی اموات کےلیے امریکہ دس سرفہرست ممالک میں شامل واحد صنعتی ملک ہےجو کہ 2019ء میں آلودگی سے ہونے والی ایک لاکھ بیالیس ہزار آٹھ سو تراسی اموات کے ساتھ ساتویں نمبر پر آیا، یہ بنگلہ دیش اور اتھوپیا ک کی سطح کےبرابر ہے۔
بھارت اور چین آلودگی سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے دنیا کے سہرفہرست ممالک ہیں، لیکن ان دونوں ممالک میں آبادی بھی دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ آبادی کی شرح کے حساب سے اموات کا موازنہ کیا جائے تو امریکہ ہر ایک لاکھ افراد میں تراسی اعشاریہ چھ اموات کے ساتھ اکتیس نمبر پر ہے ۔ چاڈ اور سنٹرل افریقین ریپبلک میں ایک لاکھ میں تین سو اموات ہوتی ہیں ۔ ان میں سے نصف سے زیادہ لوگ گندے پانی کی وجہ سے مرتے ہیں، عالمی اوسط ہر ایک لاکھ افراد میں سے ایک سو سترہ اموات کی ہے۔
تحقیق کے مطابق آلودگی سے ہر سال اتنی تعداد میں لوگوں کی جان جاتی ہے جتنی سگریٹ نوشی اور عام دھویں سے مشترکہ طور پر اموات ہوتی ہیں۔
بوسٹن کالج میں گلوبل پبلک ہیلتھ پروگرام اور گلوبل پولوشن آبزوری کے ڈائریکٹر فلپ لینڈریگن نے کہا ہے کہ نوے لاکھ بہت زیادہ اموات ہیں۔ بری خبر یہ ہے کہ یہ معاملہ کم نہیں ہورہا ۔ لینڈریگن نے کہا کہ ہم آسان چیزوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور ہم زیادہ مشکل چیزوں کا سامنا کررہے ہیں جو کہ صنعتی آلودگی اور کیمیائی آلودگی صورت میں ہمارے سامنے آرہی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔
محقیقن کہتے ہیں کہ ان اموات کو روکا جاسکتا ہے۔جارج واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈین ڈاکٹر لین گولڈمین نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر موت کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ بہت سی اموات کی وجہ آلودگی کو نہیں بتایا جاتا جیسے دل کی بیماری، فالج، پھپھڑوں کا کینسر، ذیابطیس وغیرہ جن کا کسی نہ کسی طور آلودگی سے تعلق ہو سکتا ہے۔
(خبر کا مواد خبررساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے)