افغانستان نے پاکستان سے آنے والے ٹرکوں اور مال بردار گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح میں دو گنا اضافہ کر دیا جس کے خلاف ٹرک مالکان نے ہڑتال کر دی ہے اور طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد پر دونوں جانب ہفتہ کو کھڑے ٹرکوں کی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں۔
افغانستان کی طرف سے پاکستانی ٹرکوں سے 2500 کی بجائے اب پانچ ہزار افغانی روپے وصول کرنے کا کہا گیا جبکہ افغان ٹرکوں کے لیے یہ ٹیکس 1700 سے بڑھا کر 2500 افغانی روپے مقرر کیا گیا۔
پانچ ہزار افغانی روپے کی مالیت آٹھ ہزار پاکستانی روپے کے برابر بنتی ہے اور پاکستانی ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ ٹیکس میں تازہ اضافہ ان کی برداشت سے باہر ہے۔
خیبر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر شاکر آفریدی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ روزانہ سیکڑوں ٹرک پاک افغان سرحد کے آر پار جاتے ہیں اور دونوں کے ٹرانسپورٹرز حکام کی طرف سے پہلے ہی مختلف قواعد و ضوابط نافذ کیے جانے سے پریشان ہیں اور ان کی مشکلات میں مزید اضافہ دو طرفہ تجارت اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ ہزاروں افراد کے روزگار کے لیے سازگار نہیں ہوگا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں سال طورخم کی سرحدی گزر گاہ دو مرتبہ کئی روز تک بند رہی تھی جس کی وجہ دونوں جانب کے حکام کے درمیان سرحدی معاملات پر اختلاف تھا۔ اس دوران بھی دوطرفہ آمدو رفت بند ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
حال ہی میں پاکستان نے افغانستان سے آنے والے ٹرکوں کو بغیر ویزہ پاکستان میں داخلے کی اجازت میں 30 اکتوبر تک کی توسیع کی تھی۔ پہلے یہ اجازت 30 ستمبر تک تھی۔
ادھر پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے صحافیوں کےایک نمائندہ گروپ سے گفتگو میں ان اطلاعات کو مسترد کیا کہ ان کا ملک پاکستانی ٹرکوں کو افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک تک جانے نہیں دے رہا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ ہی متنبہ کیا تھا کہ اگر افغان مال بردار ٹرکوں کو پاکستان واہگہ کے راستے بھارت نہیں جانے دے گا تو پاکستانی ٹرکوں کو بھی براستہ افغانستان وسطی ایشیا تک رسائی نہیں دی جائے گی۔
تاہم پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ افغان ٹرک بھارت کے لیے اپنا سامان واہگہ سرحد تک لے کر آتے ہیں اور انھیں اس میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔
لیکن افغانستان چاہتا ہے کہ اس کے ٹرک سامان واہگہ کی بجائے بھارت میں اٹاری کے مقام پر اتاریں۔
افغان سفیر کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر افغانستان کے تحفظات ضرور ہیں لیکن اس نے پاکستانی ٹرکوں کو وسطی ایشیا جانے کے لیے راستے کو بند نہیں کیا ہے۔