پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورت حال نے جہاں سیاسی کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے وہیں اس واقعہ نے ملک کے اقتصادی چیلنجز کے حل کی جانب پیش رفت کے حوالے سے مزید غیر یقینی کیفیت پیدا کر دی ہے جب کہ پاکستانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوریت کا تسلسل اور اقتصادی بحالی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے جمعرات کو ملک میں مالی اصلاحات کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی پالیسیوں اور ان پر کامیابی سے عمل درآمد کے لیے وسیع تر عوامی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان کے اقتصادی مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق بیرون ممالک سے تارکین وطن کی رقوم میں، جو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مناسب سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں، رواں برس اپریل میں گزشتہ سال کے اس ماہ کے مقابلے میں 29 فیصد کمی ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق کئی دہائیوں سے "ناقص اور وقتی طور پر اپنائی گئی پالیسیوں" کے نتیجے میں جنم لینے والی مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ عوام کی تعلیم اور صحت جیسے اہم پہلوؤں پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
واشنگٹن میں مقیم پاکستانی مصنف اور جنوبی ایشیا کے اسٹریٹیجگ امور کے ماہر شجاع نواز کہتے ہیں کہ حالیہ واقعات سے پیدا ہونے والے جمود اور انتشار نے پھر سے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ عوام کو جواب دہ جمہوریت کے تسلسل میں ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔
عمران خان کی گرفتاری اور اس سے قبل جاری سیاسی تناؤ اور معاشی چیلنجز کے تناظر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مستقبل کی راہ میں الیکشن کی اپنی اہمیت ہے لیکن انتخابات بذات خود کسی مسئلے کا حل نہیں ہر چند کہ یہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے ضروری ہیں۔
انگریزی میں لکھی گئی فوجی امور پر کتاب Crossed Swords: Pakistan, its Army, and the Wars Within
اور پاک امریکی تعلقات کے حوالے سے لکھی گئی کتاب "دی بیٹل فار پاکستان" کے مصنف شجاع نواز نے کہا: " انتخابات کے علاوہ ایک جمہوری نظام میں سویلین اتھارٹی ، فوج کا حکومت کے تابع ہونا، ایک آزاد نظام عدل ،موثر اقتصادی پالیسیاں اور قابل ترین پالیسی ساز جمہوریت کے اہم ترین عناصر ہیں اور پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔"
عالمی بینک کے سابق مشیر اور پاکستان کے اقتصادی مسائل اور پانی کی دستیابی پر تحقیقی کتاب کے مصنف طارق حسین اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان کے مخصوص معروضی حالات اور تاریخ تقاضا کرتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہی ایک قابل عمل اور دیرپا نظام حکومت ہونا چاہیے لیکن وہ "حکومتی عملداری" کو کامیابی کی روح قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا "میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لیے اہم ترین لفظ بہتر حکومتی عمل داری یعنی گڈ گورنس ہونا چاہیے کیونکہ اس کی عدم موجودگی نے ہمارے مسائل کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بیرونی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی استحکام کی بھی ضرورت ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت تارکین وطن کی جانب سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم پاکستانی معیشت کےلیے انتہائی ضروری ہیں"لیکن مسلسل اور تیز رفتار ترقی کے لیے ہمیں تعلیم کےشعبہ میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی ، عوام کی صحت پر توجہ دینا ہو گی اور ان سب باتوں کا انحصار حکومتی عمل داری پر ہے۔"
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم میں اتنی بڑی کمی پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ عمران خان کے دور میں ان میں اضافہ ہوا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں میں مقبول ہیں۔ سوال یہ ہے کیا کہ پاکستانی اب اسٹیٹ بینک کی بجائے دوسرے طریقوں سے پاکستان رقوم بھیج رہے ہیں یا وہ ملکی صورت حال کو دیکھ کر زیادہ رقوم بھیجنے سے گریزاں ہیں؟
شجاع نواز 'فارن ریمیٹنسز ' کو پاکستان معیشت کے لیے آکسیجن قرار دیتے ہیں۔
""میں کہوں گا گزشتہ ایک سال میں تارکین وطن کی رقوم میں جو کمی آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج کے ایک بلین ڈالر ز کی قسط سے دس گناہ زیادہ ہے۔ "
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے مڈل کلاس کی تعداد پانچ کروڑ30 لاکھ سے کم ہو کر محض دو کروڑ رہ گئی ہے جب کہ خوردنی اشیا کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے غربت میں اضافہ کیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں قوموں کی ترقی جمہوری نظام حکومت، آزاد سوچ، تنوع اور اختراعات کے حوصلہ افزا ماحول میں ہی ممکن ہو سکتی ہےجس میں جمہوری ادارے عوام کو جوابدہ ہوں۔
دوسری جانب فوجی ڈکٹیٹرشپ اورذہنی طور پر بند معاشروں میں وقتی طور پر تو کچھ اقتصادی بہتری آسکتی ہے لیکن یہ دیر پا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں کے حکمران عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے اور لوگ آزادانہ تحقیق یا تنقیدی سوچ سے کام نہیں کر سکتے۔
طارق حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا دیر پا حل تلاش کرنا ہی ملک کے ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر موجودہ پی ڈی ایم کے مقابلے میں عمران خان کی پارٹی الیکشن انتخابی فتح بھی حاصل کرلے تو انہیں بھی ملک کو ایک بہتر ترقی کی راہ پر ڈالنےکے لیےبڑی تگ و دو کرنی پڑےگی ۔
انہوں نے معیشت کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کےلیے کہا کہ "قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لینے کی پالیسی" ہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتی۔
"کامیابی کا رازمعیاری تعلیم کے عام ہونے میں ہے ۔ مجھے بتائیے کہ کیا کسی ملک نے تعلیم کے بغیر ترقی کی ہے۔ تعلیم ہو گی تو عوام بہتر انداز میں مسائل کا ادراک کر سکیں گے اور حالات و مسائل کا مناسب جائزہ لے سکیں گے۔ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک موثر اور جوابدہ نظام حکومت ہے۔"