رسائی کے لنکس

وزیرِ اعظم کے معاونین میں پانچ کا اضافہ؛ کیا خزانے پر بوجھ بڑھے گا؟


PM Shehbaz
PM Shehbaz

پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت میں مزید پانچ معاونین خصوصی کا اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کے بعدپاکستان کی تاریخ میں یہ دوسری بڑی کابینہ بن گئی ہے جس کے ارکان کی تعداد 83 ہوگئی ہے۔

یوں موجودہ وفاقی کابینہ میں 34 وزرا، سات وزرائے مملکت، 38 معاونین خصوصی اور چار مشیر شامل ہیں۔

کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق مطابق رکن قومی اسمبلی راؤ اجمل، شائستہ پرویز، قیصرشیخ، محمد حامد حمید اور ملک سہیل خان کومعاونین خصوصی تعینات کیا گیا ہے۔ ان کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر ہوگا ۔ ان معاونین کو کوئی قلمدان نہیں دیا گیا۔

ملک میں سیاسی مبصرین اس بات کو نوٹ کر رہے ہیں کہ تازہ ترین تقرریاں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب پاکستان میں حکام عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کر رہے اور ملک میں مہنگائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت کا ان تقرریوں کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ معاونین خصوصی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں کیوں کہ یہ تمام افراد کسی تنخواہ کے بغیر کام کریں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے معاونین خصوصی کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ارکان اسمبلی اور سیاسی شخصیات عہدوں کے ساتھ اپنے حلقوں پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے ملک میں کفایت شعاری مہم کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کا کام ملک میں اخراجات کو کم کرنے کے بارے میں سفارشات دینا تھا۔

وزیر اعظم کے 23 معاونین خصوصی کے پاس کوئی قلم دان نہیں ہےاور مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف بھی کئی مہینوں سے بغیر کسی قلم دان کے وفاقی وزیر ہیں۔ اس سے قبل سینئر قانون دان عرفان قادر کو بھی معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ کابینہ میں اضافہ قومی خزانے پر یقیناً بوجھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معاونین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کوئی تنخواہ نہیں لے رہے۔ لیکن ان کو ایک دفتر مہیا کیا جائے گا، اسٹاف دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں گاڑی ملے گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان سب چیزوں کے اخراجات ہوں گے۔ وہ سفر کریں گے تو انہیں پروٹوکول دیا جائے گا۔ یہ ان کے براہ راست اخراجات ہیں جو ہر حال میں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کا سیزن قریب ہے اور لوگوں نے اپنے حلقوں میں جا کر کام کروانے ہیں۔ اگر ان کے پاس سرکاری عہدہ ہوگا تو ان علاقوں میں موجود افسران اور دیگر سرکاری عملہ ان کی بات مانے گا۔ اس کے علاوہ گاڑی پر پرچم لگے ہونے سے ان کے ورکرز کو فائدہ ہوتا ہے۔

احمد بلال محبوب کے بقول ان میں سے بیشتر کے پاس کوئی قلم دان بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کے ایک وزیر کے پاس بھی کوئی محکمہ بھی نہیں ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئین میں وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور مشیران کی تعداد کے حوالے سے لکھا ہوا ہے۔ لیکن معاونین خصوصی کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا ، یہ ایک ایگزیگٹو اختیار ہے اور کوئی بھی وزیراعظم اپنی مرضی کے مطابق اس کی تعداد رکھ سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں ایسی حکومت تھی جس میں وزرا،وزرائے مملکت، مشیران اور معاونین خصوصی کی تعداد 91 تھی۔ موجودہ حکومت دوسرے نمبر پر ہے جس میں یہ اتنی بڑی تعدادہے۔

انہوں نے کہا کہ معاونین خصوصی وزرا پر مشتمل کابینہ میں شامل نہیں ہوتے اور یہ کابینہ کے اجلاس میں بھی دعوت نامہ ملنے کے بعد ہی شریک ہوتے ہیں۔

دوسری جانب فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک(فافن) کے سربراہ مدثررضوی کہتے ہیں کہ معاونین خصوصی کا تقرر اور اخراجات اپنی جگہ ایک مسئلہ ہوگا لیکن میرے نزدیک اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کابینہ میں شامل وزیر اور وزرائے مملکت کا باقاعدہ حلف ہوتا ہے جس کے بعد انہیں وزارتیں اور محکمے دیے جاتے ہیں لیکن اس وقت 40 کے قریب معاونین خصوصی ہیں جو کسی حلف کے بغیر حکومت کا حصہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مدثر رضوی نے کہا کہ یہ لوگوں کو خوش کرنے کا طریقہ ہے جس میں اپنے قریبی افراد کو نوازا جاتا ہے۔ کئی ایم این ایز کو بھی یہ اسٹیٹس دیا گیا ہے۔ پچھلی حکومت میں بعض معاونین خصوصی وزارتیں بھی چلا رہے تھے جیسے صحت کی وزارت کافی عرصہ تک معاون خصوصی ہی چلاتے رہے۔

مدثررضوی نے کہا کہ اصل میں یہ متعلقہ قانون سازی میں خامی کی وجہ سے ہے، وزرا، وزرائے مملکت اور مشیران کی تعداد آئین میں مقرر کردی گئی ہے لیکن معاونین خصوصی کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اگر قانون سازی کے ذریعے ان کی تعداد بھی مقرر کردی جائے تو بہت بہتر ہوگا کیوں کہ حکومت اسی شق کے نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان معاونین خصوصی کی بڑی تعداد بڑے حکومتی معاملات میں شامل ہوتی ہے اور یہ بڑے فیصلے بھی کرتے ہیں۔ ان کے بقول اگر کوئی رکن قومی اسمبلی ہے تو بھی اس نے حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر معاون خصوصی نہ تو سینیٹ کے رکن ہیں اور نہ ہی ایم این اے ، ان لوگوں نے ریاست سے وفاداری کا حلف بھی نہیں اٹھایا ہوتا۔لیکن وہ حکومت کے بڑے فیصلوں میں شامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض معاملات حساس ہوتے ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں کو ایسے فیصلوں میں بٹھانا چاہیے یا نہیں۔ اگر باہر سے آنے والا ایک شخص کابینہ کے اجلاس میں بیٹھتا ہے۔ اس کے تمام فیصلوں کو سنتا ہے جب کہ اس کے پاس کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔

کفایت شعاری کے معاملہ پر مدثر رضوی کا کہنا تھا کہ کفایت شعاری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس پر جو اخراجات ہیں وہ چند کروڑ وں کے ہوں گے۔ کفایت شعاری کا معاملہ اٹھانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔

اس وقت سول بیوروکریسی میں شامل افراد کئی کئی گاڑیاں اور مراعات استعمال کر رہے ہیں۔ اگرکفایت شعاری کرنے ہے تو ان سے آغاز کیا جائے۔ ان کا احتساب کیا جائے۔ کچھ عرصے کے لیے آنے والے معاونین خصوصی کی گاڑیوں اور اخراجات کا کہہ کر تمام بچت انہی سے کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔

XS
SM
MD
LG