سعودی عرب میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ایسے سعودی شخص کو گرفتار کیا ہے جس نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک اسرائیلی یہودی کو مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں گھسنے میں مدد کی تھی۔
اس واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث سعودی شہری کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ حکام کے مطابق اسے تفتیش کے لیے استغاثہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور وہ زیرِ حراست ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیل کے ‘چینل-13’ کے لیے کام کرنے والے صحافی گل تماری نے مکہ میں اپنا لگ بھگ 10 منٹ کا پروگرام ریکارڈ کیا جو کہ پیر کو نشر کیا جا چکا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں کسی بھی قومیت کے حامل مسلم افراد داخل ہو سکتے ہیں البتہ غیر مسلم افراد کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ کہ اس شہر کی حدود میں خاص قسم کے ضابطۂ اخلاق اور طرزِ عمل کا ہونا ضروری ہے۔
اس واقعہ پر صحافی اور چینل نے ریکارڈ شدہ پروگرام نشر ہونے کے بعدسوشل میڈیا پر اپنا ردِ عمل ظاہر کیا۔
ٹی وی پر نشر کیے گئے 10 منٹ کے پروگرام میں دکھایا گیا ہے کہ صحافی نے حاجیوں کے راستے میں موجود اس مقام کا دورہ کیا، جہاں مسلمانوں کے آخری پیغمبر نے لگ بھگ 14 سو سال قبل اپنا آخری خطبہ دیا تھا۔
صحافی نے یہ واضح کیا کہ وہ دانستہ طور پر اپنے ڈرائیور کے ہمراہ مکہ آئے۔پروگرا م کی ویڈیو میں وہ عبرانی زبان میں آہستہ آواز میں بول رہے ہیں تا کہ اس نہیں کوئی سن نہ سکے۔
صحافی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پہلا اسرائیلی یہودی شخص ہے جو اس شہر میں داخل ہوا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق صحافی نے ریکارڈنگ کے دوران ڈرائیور کو اپنے اسرائیلی اور یہودی ہونے کی شناخت نہیں کرائی تھی۔
اسرائیلی ٹی وی پر نشر کی گئی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ تماری اور اس کے سعودی ڈرائیور ہائی وے پر ایک ایسے مقام سے بھی گزرے جہاں درج تھا کہ یہاں سے غیر مسلم نہیں گزر سکتے اور پھر وہ وہاں پر نصب مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی بڑی نقل کے نیچے سے بھی گزر تے ہیں جو شہر کے مرکزی دروازے پر نصب ہے۔
صحافی مکہ سے گزرتے ہوئے عرفات کی طرف جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا خواب پورا ہوا۔
تماری کا ویڈیو میں پہاڑ پر چڑھنے کے بعد کہنا تھا کہ مذہبی پولیس نے سوالات پوچھنا شروع کر دیے کیونکہ پویس یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اس لیے انہوں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔
نیوز چینل نے ، جو عبرانی اور عربی زبانوں میں نشریات دکھاتا ہے، کہا ہے ا کہ تماری کی رپورٹ صحافیانہ تجسس اور چیزوں کو خود سے دیکھ کر رپورٹ کرنے کے مقصد کے تحت تھی۔
اسرائیل کے معروف نیوز چینل نے اس رپورٹ کے نتیجے میں سامنے آنے والی شدید تنقید کے بعد معذرت کی ہے۔
اس چینل کی ویڈیو اور اس پر شدید ردِ عمل ایسے موقع پر سامنے آئے تھے جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن مکہ کے قریبی شہر جدہ کا دورے کر رہے تھے۔
دوسری طرف اسرائیلی اخبار ‘ٹائمز آف اسرائیل’ نے اس معاملے سے آگاہ ایک بے نام ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی حکام صحافی اور چینل کی طرف سے جاری کردہ بیان پر مطمئن ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے صحافی کے اس اقدام کو پبلک پراسیکیوٹر کو بھیج دیا ہے جب کہ اسرائیلی شہری اب ملک میں موجود نہیں ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے جاری کردہ بیان میں صحافی کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی البتہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ غیر مسلم تھا، جس کے پاس امریکہ کی شہریت بھی موجود تھی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکی پاسپورٹ کے ذریعے سعودی عرب میں داخل ہوا۔
ٹی وی سے وابستہ صحافی گل تماری کے مکہ میں داخلے کی خبر کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر آنے والا رد عمل کافی شدید تھا جب کہ مسلمان اور سعودی شہریوں نے اس جگہ کے تقدس کو نظر انداز کرنے پر تنقید کی ہے۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات ایران سے متعلق مشترکہ خدشات کے پیشِ نظر خاموشی سےآگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس واقعے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آنےامکان نہیں ہے۔
سعودی عرب کا عوامی طور پر اصرار ہے کہ اس کی پالیسی یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مکمل تعلقات صرف اس صورت میں قائم ہو سکتے ہیں جب فلسطینی ریاست اور فلسطینیوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔
رپورٹس کے مطابق اس واقعے پر سامنے آنے والے شدید ردِ عمل نے پولیس کو جمعے کی شب اس سعودی شخص کی گرفتاری کا اعلان کرنے پر مجبور کیا، جس نے پولیس کے بقول غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئےایک غیر مسلم شخص کے مکہ میں داخلے کے لیے سہولت فراہم کی۔