رسائی کے لنکس

تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ 27 مارچ کے بعد, پہلے ڈی چوک پر وزیرِ اعظم کے جلسے کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومت کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ 27 مارچ کے بعد ہو گی۔

حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فیصل جاوید نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ 27 مارچ کے بعد ہو گی۔حزبِ اختلاف کو اس میں ناکامی کا سامنا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے آزادی چوک پر اتوار 27 مارچ کو ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس جلسے سے عمران خان خطاب کریں گے۔ ان کا یہ خطاب وزیراعظم پر اعتماد پلس ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو منصب سے ہٹانے کے لیے حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع ہونے کے بعد سے سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

حزبِ اختلاف کو یقین ہے کہ وہ عددی اکثریت کے ذریعے تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کر سکتی ہے جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثریت کو برقرار رکھے گی۔ایسے میں سیاسی بیان بازی میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان سیاسی طاقت کے اظہار کے لیے عوامی جلسے کر رہے ہیں تو حزبِ اختلاف بھی روزانہ سیاسی ملاقاتوں اور پریس کانفرنسوں میں مصروف ہے۔

سیاسی گرما گرمی کے اس ماحول میں حکومت کی اتحادی جماعتیں مرکزِ نگاہ بنی ہوئی ہیں جنہوں نے تاحال کسی کی واضح حمایت یا مخالفت کا اعلان نہیں کیا۔

ایم کیو ایم کے وفد کی بلاول اور زرداری سے ملاقات

پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر حزب اختلاف سے مشاورت میں ہیں۔

اگرچہ حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی نے تاحال عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم وہ اپنا جھکاؤ حزب اختلاف کی طرف دکھا رہی ہیں۔

مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں عدم اعتماد پر مشترکہ فیصلہ لیں گی جس پر مشاورت جاری ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماؤں نے سوموار کو اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے قائدین آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کی جس میں دونوں جماعتوں کا ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر اتفاق پایا گیا۔

اس ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی قیادت کے درمیان ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کے تمام تر نکات سے بھی اتفاق کیا ہے۔

پیپلز پارٹی قائدین سے ملاقات کے بعد متحدہ کا وفد مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ پہنچا جہاں انہوں نے چوہدری برادران سے عدم اعتماد کی تحریک پر مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر تبادلہ خیال کیا۔

مسلم لیگ ق کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ متحدہ رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں موجودہ ملکی سیاسی صورت حال، اتحاد اور باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

ایم کیو ایم کے وفد میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عامر خان، وسیم اختر، امین الحق، اور اظہار الحسن شامل تھے۔

دوسری طرف وزیر اعظم عمران نے بھی اتحادی جماعتوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور سوموار کو جی ڈی اے کی رہنماء فہمیدہ مرزا سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

عمران خان نے بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی سربراہ خالد مگسی سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ (ق) پر مکمل اعتماد ہے۔ مختلف نشیب و فراز آئے اور انہوں نے حکومت کا ہی ساتھ دیا۔

تحریکِ عدم اعتماد: حکومت کیا کر سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:47 0:00

حکومت کی اتحادی جماعتوں کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یقین ہے کہ وہ حزبِ اختلاف کی چال کو سمجھ کر ان کے وعدوں کی سچائی کو بھی جانتے ہوں گے اور ان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بلاول بھٹو زرداری خود کو مستقبل کا وزیرِ اعظم سمجھتے ہیں تو یہ غلط فہمی جلد دور ہو جائے گی۔

حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہی نے اتوار کو پارٹی کے مشاورتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے حتمی فیصلہ کر لیا ہے تاہم اس کا اعلان دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

اتوار کی شب گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم کے دفتر کا دورہ کیا تھا اور انہیں حکومت کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔

ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی سیاسی اور عالمی صورتِ حال میں حزبِ اختلاف نے ان سے رابطہ کیا ہے جس پر ایم کیو ایم نے ابھی فیصلہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی صورتِ حال پیدا ہو جمہوریت کو غیر مستحکم نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے صورتِ حال پر غور کرنے کے لیے تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں سیاسی اور قانونی حکمتِ عملی پر غور کیا جائے گا۔

حکومت کا قانونی پہلوؤں پر بھی غور

اطلاعات کے مطابق حکومت سیاسی اقدامات کے ساتھ ساتھ تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے قانونی پہلوؤں پر بھی غور کر رہی ہے جن کے ذریعے اس تحریک کو رائے شماری کے بغیر ہی مسترد کیا جا سکے۔

سوموار کو وزیر اعظم عمران خان نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ایک بار پھر مشاورت کے لیے بلوایا اور قانونی معاملات پر غور کیا گیا۔

حکومت یا اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ممکنہ طور پر کسی آئینی یا پارلیمانی قواعد کی بنیاد پر تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد یا ملتوی کرنے کے سوال پر پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے کے بجائے دھاندلی پر غور کر رہی ہے۔

سیاسی صورتِ حال کے پیش نظر وزیرِ اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کا ہفتہ وار اجلاس مسلسل چوتھی بار ملتوی کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG