پاکستان میں حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل ملک کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کے قائدِ حزبِ اختلاف بننے پر بیانات کا تبادلہ جاری ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بھی ایک دوسرے کی پالیسی پر تنقید کر رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایک چھوٹے عہدے کے لیے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے سینیٹ میں اپنے امیدوار کی شکست کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان جیسے ردِ عمل کی امید نہیں تھی۔
لاہور ہائی کورٹ میں ہفتے کو حفاظتی ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں مریم نواز نے یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر تقرر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیلیکٹ ہونا ہے تو عمران خان کی پیروی کرنی چاہیے۔ 'زرداری، سب پر بھاری' والی بات شرمندگی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف کو بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین نے 'باپ' کے کہنے پر ووٹ دیا۔
واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے نام کے ابتدائی حروف کے استعمال سے اس کو 'باپ' بھی کہا جاتا ہے۔
مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف لوگ آئین و قانون کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف لوگ چھوٹے سے فائدے کے لیے بیانیے کو روند رہے ہیں اور چھوٹے سے عہدے کے لیے جمہوری جدوجہد کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں مسلم لیگ کے امیدوار کو سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ جب کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ایسے کسی بھی اتفاق کی تردید کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے مزید کہا کہ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو مل جاتا تو انہوں نے کون سی حکومت بنا لینا تھی؟
مریم نواز نے کہا کہ جب باپ کو حکم ہوتا ہے وہ حکومتی نشستوں پر نظر آتے ہیں اور جب باپ کا حکم آتا ہے تو اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں۔
مریم نواز نے پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر آپ نے تابعداری کرنی ہے تو پھر آپ کو عمران خان کی پیروی کرنی چاہیے۔ جو پوری طرح عیاں ہو چکے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو۔ آپ سمجھتے ہیں کہ سوائے سلیکٹ ہونے کے آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے قائد حزبِ اختلاف بننے پر مریم نواز نے مزید کہا کہ اگر یہ عہدہ چاہیے تھا تو آپ نواز شریف سے بات کر لیتے۔ وہ آپ کو ووٹ دے دیتے۔ آپ نے 'باپ' سے ووٹ لیے جو اپنے باپ کی اجازت کے بغیر کسی کو ووٹ نہیں دیتے۔
اُن کے مطابق شاید دنیا بھر میں یہ پہلی مثال ہے جہاں لیڈر آف دی اپوزیشن حکومت سیلیکٹ کر رہی ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے مسلم لیگ (ن)، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر جماعتیں کافی ہیں۔ ان کے بقول جمہوریت اور عوامی طاقت پر یقین رکھنے والے ڈیل کر کے آگے نہیں بڑھتے۔ عوام دیکھ رہے ہیں کون کس کے ساتھ ہے۔
'کچھ اراکین کو محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے'
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) سے بالکل توقع نہیں تھی کہ وہ سینیٹ میں اپنے امیدوار کی شکست کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان جیسا ردِ عمل دے گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سلیکٹڈ کا لفظ اُنہوں نے متعارف کرایا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ لفظ کس پر استعمال ہونا ہے اور کس پر نہیں ہونا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز، پیپلز پارٹی کی بات کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دوستوں سے درخواست ہے حوصلہ رکھیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اُن کی جماعت کے کچھ اراکین کو محسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھالنا خوش آئند ہے۔
بلاول کا مزید کہنا تھا کہ مریم نواز پر تنقید کی، نہ کروں گا۔ ان کو مسلم لیگ میں اہم مقام ملنا پنجاب کی قیادت کے لیے بھی اچھا ہے۔ ان کے بقول پارلیمان میں شکست دلوانے والی بات جو نہیں مان رہے تھے۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ پارلیمان میں حکومتی امیدوار کو شکست دلانے کے بعد اس پر زیادہ غور کرتے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بی بی شہید قتل کیس میں نواز لیگ کے امیدوار اعظم نذیر تارڑ وکیل تھے وہ کیسے ان کی حمایت کرتے؟
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ الزامات کا جواب دینا پسند نہیں کریں گے۔
اُن کے بقول وہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ وہ چاہیں گے کہ پی ڈی ایم کا اتحاد برقرار رہے۔
'پی ڈی ایم ختم ہو چکی ہے'
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم ختم ہو چکی ہے۔ عوام ان کی دھینگا مشتی دیکھ رہے ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن اگر وزیرِ اعظم کی بات مانتی تو آج ان کا مذاق نہ بنتا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کی نظر میں پی ڈی ایم ختم ہو چکی ہے۔ انتخابی اصلاحات کی پیش کش پر مسلم لیگ (ن) آگے نہیں بڑھی۔ اب تمام جماعتوں سے الگ الگ رابطہ کریں گے۔