عشرت العباد خان کی گورنر سندھ کے منصب پر واپسی سے حکومت کے خلاف مسلم لیگ ن کے گرینڈ الائنس اپوزیشن منصوبے کو جہاں ایک جانب بڑا دھچکا پہنچا وہیں اس تمام تر صورتحال میں حکومت کے لئے حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس کے خلاف متحد نہیں ہو سکیں اور یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر قریب ہوگئی ہیں۔
مسلم لیگ ن ، نئی صورتحال سے دوچار
27 جون کو ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ ملک میں اب حقیقی اپوزیشن سامنے آئے گی اور مسلم لیگ ن کے گرینڈ الائنس کی دعوت پر ایم کیو ایم لبیک کہتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کے لئے بھرپور جدوجہد کرے گی ۔ 6 جولائی کو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے وفود کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں نے مشترکہ اپوزیشن پر جو اتفاق کیا تھا اس کے بعد قومی امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اب حکومت کے لئے کڑے وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔
نواز لیگ کی سیاسی تنہائی کا تاثر ختم نہ ہوسکا
ایم کیو ایم کی حکومت کے خلاف گرم جوشی دیکھ کر مسلم لیگ ن کے لئے یہ امید بھی پیدا ہو گئی تھی کہ اس کے لئے پائے جانے والا سیاسی تنہائی کا تاثر ختم ہو جائے گا تاہم سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے معاملات پر دونوں جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیو ایم کا جھکاؤ ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کی جانب ہونے لگا اور پھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی واپسی سے مسلم لیگ ن وہیں کھڑی نظر آتی ہے جہاں 27 جون سے پہلے تھی۔
گرینڈ الائنس سے متعلق اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات
ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے 20 دن گزر جانے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں حکمراں اتحاد کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر متفق نہ ہو سکیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے درمیان اختلافات ہیں ۔ سینیٹ میں اپوزیشن قائد حزب اختلافات کے معاملے پر جے یو آئی اور مسلم لیگ ن کے خلاف سخت اختلافات پائے گئے اور ایم کیو ایم کی اپوزیشن میں آمد کے بعد دونوں جماعتوں میں اس کی حمایت حاصل کرنے پر رسہ کشی شروع ہو گئی ، بالآخر جے یو آئی کی فتح ہوئی جس پر مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم میں دوریاں پیدا ہوئیں۔
ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کی دوسری بڑی وجہ سندھ میں کمشنری نظام بنا جس پر ایم کیو ایم نے سخت تحفظات ظاہر کیے تاہم پنجاب میں یہ نظام پہلے نافذ تھا اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اس کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی۔
اس تمام تر صورتحال میں دو ہزار آٹھ میں تشکیل پانے والے آل پارٹیز ڈیمو کریٹک الائنس ” اے پی ڈی ایم “ میں طے شدہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی مسلم لیگ ن کو بڑی مہنگی پڑی اور یہی وجہ ہے کہ عین موقع پر صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر انتخابات میں حصہ لینے پر جماعت اسلامی ، تحریک انصاف ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی نے نواز شریف پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ نہیں کیا اور گرینڈ الائنس پر کھل کر تنقید کی۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ایک بار پھر قریب !!
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ایم کیو ایم کے وفد کے ہمراہ جلد صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے ۔ مبصرین کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ کشمیری مہاجرین کے لئے کراچی کی د و نشستوں پر 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی اپنے امیدواروں کو ایم کیو ایم کے امیدواروں کے مقابلے میں دستبردار کراسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ میڈیا ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات تک ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دئیے جائیں اورکراچی میں ایڈمنسٹریٹر ایم کیو ایم کو دے دیا جائے۔
اگر چہ پیپلزپارٹی کی جانب سے حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کرنے پر ایم کیو ایم کو شدید تحفظات ہیں تاہم ایم کیو ایم کے حق میں پی پی پی بلدیاتی انتخابات میں دستبردار ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پیپلزپارٹی سندھ میں کسی صورت ایم کیو ایم کی مخالفت نہیں چاہتی اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ہر مطالبہ پر غور کرنے کے لئے تیار ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان ذوالفقار مرزا کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد اٹھنے والے طوفان کے بعد مکمل خاموشی ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانا ت سے گریزاں ہے ۔