سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں گرینڈ حیات ٹاور کی لیز منسوخی کے خلاف اپیل منظور کر لی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
ٹاورز کے مالک بی این پی گروپ کو 8 سال میں ساڑھے 17 ارب کی رقم وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کو ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے کا کمزور شخص کے ساتھ داؤ چل جاتا ہے لیکن عدالت کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ سی ڈی اے سارے معاملے پر سویا رہا اور اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں گرینڈ حیات ہوٹل لگژری رومز کے بجائے لگژری اپارٹمنٹ کی تعمیر غیر قانونی قرار دی تھی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بی این پی کنسورشیم کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ اس دوران کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین اور دیگر حکام پیش ہوئے۔
جب سماعت شروع ہوئی تو سی ڈی اے کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ گرینڈ حیات کے معاملے کا کابینہ مکمل جائزہ لے گی۔ گرینڈ حیات ٹاور مارگلہ نیشنل پارک میں آتا ہے اور اس کی لیز غیر قانونی ہے۔ نیلامی کے بعد کنسورشیم کو تبدیل کر دیا گیا۔
وکیل سی ڈی اے نے انکشاف کیا کہ بی این پی نے کبھی پلاٹ کی نیلامی میں حصہ نہیں لیا۔ سی ڈی اے کے ذمہ داروں نے گرینڈ حیات میں فراڈ کیا۔ گرینڈ حیات کا معاہدہ بدعنوانی سے ہوا ہے۔ ٹاور کی سائٹ کو دوبارہ نیلام کیا جائے گا۔ عدالت کسی فیصلے سے قبل کابینہ کے فیصلے کا انتظار کرے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ گرینڈ حیات کے دو ٹاور بن گئے ہیں۔ لوگوں نے گرینڈ حیات میں اپارٹمنٹس خرید لیے ہیں۔ جب ٹاور بن رہا تھا اس وقت سی ڈی اے نے اعتراض نہیں کیا۔ تیسرے ٹاور کی تعمیر کون کرے گا۔ آج سی ڈی اے کو 15 ارب روپے لے کر دے رہے ہیں۔ مشکل تو ان لوگوں کو ہو گی جنہوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ عدالت سی ڈی اے کی محتاج نہیں۔ کابینہ فیصلہ نہیں کرتی تو ہم میرٹ پر فیصلہ کر دیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ سی ڈی اے نے کابینہ کو کوئی سفارش نہیں دی۔ سی ڈی اے کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کتنے عرصے سے ڈیم کے لیے پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ابھی تک ابھی تک 15 ارب اکٹھا نہیں کر سکے اور سی ڈی اے کو 15 ارب روپے مزید مل رہے ہیں۔
گرینڈ حیات کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ گرینڈ حیات میں ہوٹل اس لیے نہیں کیونکہ سی ڈی اے کے کوڈز نہیں ہے۔ 2005 کے زلزلے کے بعد سے سی ڈی اے نے ہوٹلز کیلئے ضابطہ نہیں بنایا۔ تین سال میں عمارت اور 2023 تک ہوٹل مکمل کرنا ہے۔ تعمیراتی کمپنی کو بھی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ٹوٹل 15 ارب کی رقم قابل قبول ہے۔
وکیل نے بتایا کہ گرینڈ حیات کی تعمیر کا عمل 2028 تک چلے گا۔ 15 ارب ادا کرنے کے لیے بینک فناسنگ بھی لیں گے۔
جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سی ڈی اے کا کمزور شخص کے ساتھ داؤ چل جاتا ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ سی ڈی اے سارے معاملے پر سویا رہا۔ کسی وزیر کے کہنے پر لیز منسوخ کی۔ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ لیز غیر قانونی ہے یہ بات 13 سال بعد یاد آئی۔
سپریم کورٹ نے گرینڈ حیات کے مالک بی این پی گروپ کی اپیل منظور کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور گرینڈ حیات ہوٹل کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
عدالت نے کابینہ کو معاملہ بھجوانے کی سی ڈی اے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ گرینڈ حیات ہوٹل کو مزید ساڑھے 17 ارب روپے 8 سال میں ادا کرنا ہوں گے۔
گرینڈ حیات میں کس کس کے فلیٹس ہیں؟؟
کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر زیر تعمیر گرینڈ حیات ڈیولپمنٹ میں وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف سمیت اہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے فلیٹس ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے سال 2016 میں تین کروڑ روپے مالیت جبکہ خواجہ محمد آصف نے لگژری اپارٹمنٹ سال 2015 میں ایک کروڑ 49 لاکھ 99 ہزار روپے میں خریدا۔
گرینڈحیات ہوٹل سے اپارٹمنٹ کیسے بنے؟؟
شاہراہ دستور پر لگژری ہوٹل کے قیام کے لیے بسم اللہ نیاگرا پیراگون گروپ نے 2005 میں سی ڈی اے سے ساڑھے 13 ایکڑ اراضی 99 سال کے لئے لیز پر حاصل کی اور بعد میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لگژری ہوٹل کے قیام کے بجائے 2 ٹاورز میں لگژری اپارٹمنٹس بنا کر انہیں فروخت کر دیا جس کے باعث قومی خزانے کو 50 ارب کا نقصان پہنچا۔
سابق دورِ حکومت میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور مئی 2017 میں ایف آئی اے نے وزیر داخلہ کی ہدایت پر سی ڈی اے کے سابق چیئرمین کامران لاشاری، سابق ممبر پلاننگ بریگیڈیئر نصرت اللہ، سابق ممبر فاننس کامران قریشی، سابق رکن ایڈمنسٹریشن شوکت محمد اور سابق رکن انجینئر موئن کاکا کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ تاہم، دورن تحقیقات کسی کے خلاف دھوکہ دہی، اختیارات کا غلط استعمال، جعل سازی یا نقالی کے الزام ثابت نہیں کر سکی۔
پاکستانی پارلیمان کی پبلک اکاونٹس نے بھی بی این پی گروپ کو 13 ایکڑ سے زائد اراضی الاٹ کا نوٹس لیا تھا۔
آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ اراضی کی لیز 75 ہزار فی مربع گز کے حساب سے 4 ارب 88 کروڑ میں دی گئی تھی۔ ہوٹل کے لیے اراضی کم نرخوں پر دی گئی اور لیز کی باقی رقم 4 ارب 14 کروڑ بنتی ہے جس کے لیے بینک گارنٹی بھی نہیں لی گئی۔