واشنگٹن —
دنیا بھر میں بچوں میں موٹاپا ایک مسئلے کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی ان بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو موٹاپے کی طرف مائل ہیں۔ اس بارے میں کیے جانے والے تحقیقی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بچوں میں موٹاپا مستقبل کی ایک بڑی پریشانی بن سکتی ہے کیونکہ وہاں موٹے بچوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کے تدارک اور بچاؤ کے ادارے کے اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں میں امریکہ میں موٹاپے کی طرف مائل بچوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق یہ شرح غریب محلّوں اور علاقوں میں زیادہ ہے۔
رائس یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ غربت موٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔ ریچل ٹولبرٹ کمبو نے اس تحقیق کی سربراہی کی اور ان کا کہنا ہے کہ، ’ہمیں اپنی تحقیق سے معلوم ہوا کہ غریب محلوں یا علاقوں میں رہنے والے بچوں میں موٹاپے کی شرح نسبتاً بہتر اور امیر علاقوں کی نسبت زیادہ تھی۔‘
جبکہ چند تحقیق دان یہ بھی کہتے ہیں کہ کم غذائیت والی خوراک بھی موٹاپے ک ایک سبب ہے۔ توانائی کا بچوں کی نشونما سے براہ ِ راست تعلق ہے اور اگر بچوں کو ان کی خوراک سے توانائی نہیں حاصل ہو رہی تو اس کے اثرات موٹاپے کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ اگر ایک بچہ موٹا ہے تو یہ نہ صرف اس کی نشونما کے لیے خطرناک ہے بلکہ مستقبل میں بہت سی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر رابرٹ بلیک کہتے ہیں کہ، ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم غذائیت کی خوراک کی وجہ سے بچے نہ صرف موٹاپے کی طرف مائل ہوتے ہیں بلکہ اس سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور مستبقل میں ان بچوں میں ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور دیگر کئی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ روزمرہ زندگی کے معمولات اور انداز میں تبدیلی لائی جائے۔ بچوں کو شروع سے ہی جسمانی سرگرمیوں جیسا کہ مختلف کھیل اور ورزش وغیرہ میں دلچسپی لینا سکھایا جائے۔ اس طرح نہ صرف بچوں میں موٹاپے کو روکا جا سکے گا بلکہ ان کی ذہنی استعداد بھی بڑھائی جا سکے گی۔
امریکہ میں بیماریوں کے تدارک اور بچاؤ کے ادارے کے اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں میں امریکہ میں موٹاپے کی طرف مائل بچوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق دانوں کے مطابق یہ شرح غریب محلّوں اور علاقوں میں زیادہ ہے۔
رائس یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ غربت موٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔ ریچل ٹولبرٹ کمبو نے اس تحقیق کی سربراہی کی اور ان کا کہنا ہے کہ، ’ہمیں اپنی تحقیق سے معلوم ہوا کہ غریب محلوں یا علاقوں میں رہنے والے بچوں میں موٹاپے کی شرح نسبتاً بہتر اور امیر علاقوں کی نسبت زیادہ تھی۔‘
جبکہ چند تحقیق دان یہ بھی کہتے ہیں کہ کم غذائیت والی خوراک بھی موٹاپے ک ایک سبب ہے۔ توانائی کا بچوں کی نشونما سے براہ ِ راست تعلق ہے اور اگر بچوں کو ان کی خوراک سے توانائی نہیں حاصل ہو رہی تو اس کے اثرات موٹاپے کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ اگر ایک بچہ موٹا ہے تو یہ نہ صرف اس کی نشونما کے لیے خطرناک ہے بلکہ مستقبل میں بہت سی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر رابرٹ بلیک کہتے ہیں کہ، ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم غذائیت کی خوراک کی وجہ سے بچے نہ صرف موٹاپے کی طرف مائل ہوتے ہیں بلکہ اس سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور مستبقل میں ان بچوں میں ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور دیگر کئی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ روزمرہ زندگی کے معمولات اور انداز میں تبدیلی لائی جائے۔ بچوں کو شروع سے ہی جسمانی سرگرمیوں جیسا کہ مختلف کھیل اور ورزش وغیرہ میں دلچسپی لینا سکھایا جائے۔ اس طرح نہ صرف بچوں میں موٹاپے کو روکا جا سکے گا بلکہ ان کی ذہنی استعداد بھی بڑھائی جا سکے گی۔