کیوبا میں قائم گوانتانامو بے کے فوجی حراستی مرکز کو بندکرنے کے اپنی انتظامیہ کے منصوبے کے خدو خال پیش کرتے ہوئے، امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ تنصیب ’’ہماری قومی سلامتی کو فروغ نہیں دیتی، اسے کمزور کرتی ہے‘‘۔
اس سے قبل منگل ہی کے روز امریکی محکمہٴ دفاع کی جانب سے یہ منصوبہ کانگریس کے حوالے کیا گیا۔ وائٹ ہاؤس سے اپنے کلمات میں، اوباما نے کہا کہ ’’بحیثیتِ قوم، اگر ہم اس معاملے سے اِسی وقت نہیں نمٹے، تو پھر ہم اس کا توڑ کب نکالیں گے؟‘‘
اُنھوں نے کانگریس سے اپیل کی کہ وہ ’’تاریخ کے صحیح ورق پر رہے‘‘، اور کہا کہ قوم کو گذشتہ 15 برسوں کے دوران سیکھے گئے ’’اسباق‘‘ کی روشنی میں اقدام کرنا ہوگا۔
ریپبلیکن پارٹی نے پہلے ہی پینٹاگان کی اس تجویز پر نکتہ چینی کی ہے۔
ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، پال رائن نے کہا ہے کہ ’’کانگریس نے کسی غلط تاثر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ یہ قانون کے خلاف ہے، اور یہ بات قانون کے خلاف ہی رہے گی کہ حراست میں لیے گئے دہشت گردوں کو امریکی سرزمین پر منتقل کیا جائے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’ایک انتخابی وعدے کو یہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیئے کہ قومی سلامتی کو داؤ پر لگایا جائے‘‘۔
تاہم، انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ قیدخانے کو بند کرنا قومی سلامتی کی ترجیح کا معاملہ ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ تنصیب جہادیوں میں ’’جوش‘‘ پیدا کرنے کا کام کرتی ہے جس کے نتیجے میں یہ دہشت گردوں کی بھرتی کا آلہ کار ثابت ہوتا ہے۔
جب سنہ 2009 میں صدر اوباما نے عہدہ سنبھالا، اُنھوں نے اس تنصیب کو بند کرنے کی اہمت کو اجاگر کیا تھا۔ تاہم، اب جب کہ اُن کی میعادِ صدارت میں ایک سال سے بھی کم عرصہ باقی ہے، حراستی مرکز میں کُل 91 قیدی ہیں۔ اوباما نے کہا ہے کہ جب اُنھوں نے عہدہ سنبھالا، اُس وقت اس قیدخانے کو بند کرنے کے بارے میں ایوان کے دونوں اطراف یکرائے تھے۔ لیکن، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون ساز ’’اس کی سیاست سے خوف زدہ‘‘ہوئے۔
پینٹاگان کے منصوبے میں اس تنصیب کو بند کرنے کے حوالے سے امریکہ کےاندر 13 ممکنہ مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں فوج تقریباً 30 سے 60 قیدیوں کے گروپ کو منتقل کرسکتی ہے۔ تاہم، اُس نے امریکہ کی سرزمین پر کسی مقام کو منتخب کرنے کی خود کوئی سفارش نہیں کی۔ ممکنہ مقامات میں کینساس، کولوراڈو اور جنوبی کیرولینا کے قیدخانوں کےساتھ ساتھ فوجی تنصیبات بھی شامل ہیں۔