امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ گوانتانامو بے کے حراستی مرکز کو بند کرنے کے عزم پر قائم ہے۔ لیکن، بقول اُن کے، ’’یہ ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے گا، اور اس سلسلے میں، امریکی سیکورٹی کو پیشِ نظر رکھ کر اقدامات کیے جائیں گے‘‘۔
صدر اوباما نے 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، گوانتانامو بے کو بند کرنے کے لیے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن، کانگریس میں اس پر اختلاف کے باعث قید خانے کو ابھی تک بند نہیں کیا جا سکا۔
اس وقت گوانتانامو میں 60 قیدی موجود ہیں، جن میں سے 20 دوسرے ملکوں میں بھیجے جانے کے لیے اہل قرار دیے جا چکے ہیں۔ 30 قیدی ’پریاڈک ریوئیو بورڈ (پی آر بی)‘ کے سامنے پیش ہونے کے اہل ہیں۔
قیدیوں سے سوالات اور بات چیت کے ذریعے، یہ بورڈ اِس بات کا جائزہ لیتا ہے آیا وہ اپنی ماضی کے فیصلوں کو غلط سمجھتے ہیں اور کیا حراستی مرکز سے رہا ہونے کے بعد، وہ دوبارہ دہشت گرد سرگرمیوں کا حصہ تو نہیں بنیں گے۔ اس کے بعد، بورڈ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی قیدی کو رہا کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ درخواست مسترد ہونے کی صورت میں قیدی 6 مہینے بعد پھر سے نظرثانی کی درخواست دے سکتا ہے۔
باقی کے 10 قیدی ایسے ہیں جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
گوانتانامو میں پانچ پاکستانی زیر حراست ہیں، جن میں سے تین محمد احمد ربانی، عبدالرحیم غلام ربانی اور سیف الله پراچہ کو ’’امریکی سیکورٹی کے لیے خطرہ‘‘ قرار دے کر، ’پی آر بی‘ نے رہائی کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔