خیبر پختونخوا کی انتظامیہ کی جانب سے پشتون تحفظ مومنٹ کے عہدیداران منظور پشتین، ایم این اے علی وزیر، ڈاکٹر سید عالم محسود، گلالئی اسماعیل، ایڈوکیٹ فضل، خان زمان، محسن داوڑ، صمد خان اور نور السلام کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
صوابی پولیس کے ایس پی انویسٹی گیشن نے جنوبی اور شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کو خط لکھا ہے جس میں پی ٹی ایم کے ان ذمہ داران کو گرفتار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی کور کمیٹی کے رکن ایڈوکیٹ فضل خان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پی ٹی ایم نے صوابی پولیس کے اس اقدام کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے؛ اور آج اس کے خلاف ڈاکٹر مشتاق احمد نے جسٹس قلندر علی اور ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی کورٹ میں رٹ پٹیشن جمع کر دی ہے۔
صوابی پولیس کے ترجمان لیاقت خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ 12 اگست کو صوابی میں ہونے والے پی ٹی ایم کے جلسے میں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کرنے پر منظور پشتین سمیت 19 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا۔ ان میں صوابی سے تعلق رکھنے والے 10 افراد نے ضمانت از قبل گرفتاری کی تھی، جبکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری کے لئے پولیٹکل ایجنٹس کو خطوط لکھے گئے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے مگر ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ریاستی اداروں پر الزامات لگاتے ہیں۔
اس سال رمضان کے مہینے میں حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ایڈوکیٹ فضل خان کے مطابق ’’جرگے کے پاس کوئی واضح مینڈیٹ نہیں تھا، جبکہ مذاکرات کے دوران ہی ہمارے کارکنوں کی گرفتاریاں جاری تھی جس کی وجہ سے مذاکرات کو معطل کرنا پڑا‘‘۔
ادھر، ’وائس آف امریکہ‘ کی ’ڈیوا سروس‘ سے بات کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہا ہے کہ ’’ایف آئی آر میں درج الزام بے بنیاد ہیں۔ اس میں سے کوئی بھی درست نہیں۔ ایف آئی آر میں ایس ایچ او کے الزامات ذاتی عناد کی بنا پر شامل کیے گئے ہیں جنھوں نے سرکاری دفتر کا غلط استعمال کیا ہے۔ سرکاری عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال غیر قانونی عمل ہے۔ ہماری جدوجہد آئین کی بالادستی کے لیے ہے‘‘۔
محسن داوڑ نے ’ڈیوا سروس‘ کو بتایا کہ ’’یہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ارکان پر دباؤ ڈالنے کی ایک شاطرانہ چال ہے۔ ہم گرفتاری کے وارنٹس کا ملکی قانون کے مطابق سامنا کریں گے۔ ریاستیں یہ حربے سچ سے بھاگنے کے لیے استعمال کرتی ہیں‘‘۔
فضل خان ایڈوکیٹ نے صوابی پولیس کی جانب سے اُن کے اور پی ٹی ایم کے ارکان کے خلاف ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ’ڈیوا سروس‘ کو بتایا کہ ’’ہم عدالت میں اِن الزامات کو چیلنج کریں گے۔ ’پی ٹی ایم‘ کی جانب سے صوابی میں کیے گئے احتجاج کے وقت وہاں سیکشن 144 سی آر پی لاگو نہیں تھا؛ جب کہ وہاں ریلی کے لیے درکار تمام قانونی لوازمات پوری کی گئی تھیں‘‘۔