پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اتوار کو آن لائن جلسہ کرنے کا اعلان کیا تو مبینہ طور پر نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی کم کر دی جب کہ کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک صارفین کو رسائی میں بھی دشواری کا سامنا رہا۔
تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ انہوں نے آن لائن جلسہ اس لیے منقعد کیا کیوں کہ اس کے کارکنوں اور دو ماہ بعد ہونے والے عام اننتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اجتماعات کے خلاف حکومت کا کریک ڈاؤن مسلسل جاری ہے۔
انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے اور سوشل میڈیا تک صارفین کی رسائی روکنے پر پی ٹی آئی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس کی پہلے سے توقع تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک غیر قانونی، فاشسٹ حکومت نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار کم کر دی اور سوشل میڈیا تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا کیں اور یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے آن لائن جلسے سے قبل کیا گیا۔
ان اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت عمران خان کی اور تحریکِ انصاف کی بے مثال شہرت سے خوف زدہ ہے۔
انٹرنیٹ پر نظر رکھنے والے ڈیجیٹل رائٹس، سائبر سیکیورٹی اور بہتر طرز حکمرانی کو فروغ دینے والی بین الاقوامی تنظیم 'نیٹ بلاکس' نے پاکستان میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی میں خلل کی تصدیق کی ہے۔
نیٹ بلاکس نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ لائیو میٹرکس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بھر میں صارفین کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک، انسٹا گرام اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا تک رسائی میں دشواری کا سامنا رہا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ سب ایک ایسے موقع پر ہوا جب عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے والے اپوزیشن لیڈر کی جماعت تحریکِ انصاف نے آن لائن ایک بڑے اجتماع کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان میں قائم نگراں حکومت نے الزامات پر فوری طور پر کسی بھی قسم کا بیان جاری نہیں کیا۔
تحریکِ انصاف نے آن لائن جلسے کا انعقاد ایک موقع پر کیا ہے جب ملک میں آٹھ ہفتوں کے بعد آٹھ فروری 2024 کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
عمران خان کی اگست 2018 میں قائم ہونے والی حکومت کا خاتمہ ساڑھے تین برس بعد اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہوا تھا جس کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کے ملک کی طاقت ور فوج سے تنازع چل رہا۔
عمران خان نے اس تحریکِ عدم اعتماد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ سابق وزیرِ اعظم نے امریکہ اور پاکستان کی فوج حکومت کے خاتمے میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔
البتہ واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں ہی ان کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ کئی درجن مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جو ان کے خلاف حکومت نے درج کیے ہیں۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں اور ملک کو امریکہ کے دباؤ سے آزاد ایک خارجہ پالیسی دے سکیں۔
رواں برس اگست میں ایک کرپشن کیس میں عمران خان کو مقامی عدالت نے تین برس قید کی سزا سنائی تھی۔ عمران خان نے بد عنوانی کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
بعد ازاں اعلیٰ عدالت نے ان کی سزا معطل کر دی تھی اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ البتہ انتظامیہ نے انہیں رہا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف دیگر کئی مقدمات میں کارروائی جاری ہے۔
رواں برس مئی میں حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران فوج کی متعدد تنصیبات پر حملوں کا الزام تحریکِ انصاف کے رہنماؤں پر لگایا گیا تھا جس کے بعد فوج کی بھر حمایت کے ساتھ حکومت نے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور اس کے سابق وزرا سمیت کئی اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔
تحریکِ انصاف کے کئی رہنما اور متعدد کارکن اب بھی جیلوں میں قید ہیں جو اپنے کیسوں کی عدالتی کارروائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے متعدد ایسے رہنماؤں اور افراد کو رہا کیا جا چکا ہے جو عوامی سطح پر عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے تحریکِ انصاف چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں یا وہ مبینہ طور پر فوج کے دباؤ پر دوسرے سیاسی گروہوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے 1947 میں قیام کے بعد فوج تین بار منتخب وزرائے اعظم کی حکومتوں کا تختہ الٹ چکی ہے اور اقتدار پر تین دہائیوں سے زائد تک قابض رہی ہے۔
ناقدین کے مطابق پاکستان میں پالیسی سازی میں فوج کے جنرلوں کا، چاہے وہ اقتدار میں نہ بھی ہو، بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
عوامی رائے عامہ کے جائزوں میں یہ سامنے آتا رہا ہے کہ عمران خان بدستور ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں جب کہ ان کی پارٹی بھی ملک کی اہم سیاسی جماعت ہے۔
(یہ خبر وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل نے رپورٹ کی ہے۔)