|
کوئٹہ — بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پک اپ ڈرائیورز، سمندر میں کشتیاں چلانے والے اور سیاسی جماعتوں کا پاکستان ایران سرحد پر کاروبار کے مواقع محدود کرنے کے خلاف چار دن سے جاری دھرنا انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر حمود الرحمٰن سے پیر اور منگل کی درمیانی شب مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد مظاہرین نے گوادر میں سر بند اور زیرو پوائنٹ پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
صوبے کے دیگر علاقوں میں سامان پہنچانے والی گاڑیوں کی ’پک اپ یونین‘ کے صدر کہدہ سعید رشید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رات ایک بجے ڈپٹی کمشنر نے یقین دہانی کرائی کہ تمام گاڑیوں کو کام کرنے دیا جائے گا جس کے بعد دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
گوادر کی ضلعی انتظامیہ نے یکم ستمبر کو ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ساحلی علاقے کنٹانی ہور میں صرف ان 600 کشتیوں کو کاروبار کرنے کی اجازت ہوگی جن کی رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے سرحدی علاقے پر کاروبار کرنے والے تاجروں کو متنبہ کیا تھا کہ غیر رجسٹرڈ کشتیوں کو خلاف ورزی کرنے پر ضبط کیا جائے گا۔
حکومت کے اس فیصلے کے خلاف پک اپ یونین میں شامل ڈرائیوروں، گاڑیوں کے مالکان، کشتیاں چلانے والے، تاجر اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے 20 ستمبر کو گوادر میں سربند کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔ بعد ازاں اتوار کی صبح مظاہرین نے زیرو پوائنٹ پر بھی دھرنا دے کر قومی شاہراہ بلاک کر دی تھی۔
دھرنا اور احتجاج ختم کرنے کے حوالے سے یونین کے صدر کہدہ سعید رشید نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر نے تو یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام گاڑیوں کو کام کرنے دیا جائے گا۔ تاہم پیر کی صبح سے کوسٹ گارڈز کے اہلکار گاڑیوں کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے۔
ان کے بقول اگر صورت حال یہی رہی تو دوبارہ دھرنا دیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے وائس آف امریکہ نے کوسٹ گارڈز سے رابطہ کیا۔ تاہم ان کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
گوادر میں دونوں مقامات پر رات گئے دھرنا ختم ہونے کے بعد گوادر کوئٹہ اور گوادر کراچی قومی شاہراہوں کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
البتہ پاکستان ایران رامدان گبد سرحد کو کھولنے کے حوالے سے تاحال کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
ضلعی انتظامیہ نے دھرنے کے باعث کوسٹل ہائی وے کی بندش اور سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر گبد کے مقام پر پاکستان ایران سرحد 250 پر ہر قسم کی ٹریفک کی آمد و رفت پر پابندی عائد کی تھی۔
اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر گوادر سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
قبل ازیں کشتیوں سے ایران سے پاکستان لائے جانے والے سامان کو صوبے کے دیگر علاقوں میں پک اپ پر لے جانے والے ڈرائیور عبد الواحد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے سرحد پر کاروبار کی بندش کے باعث ان کا روزگار شدید متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’’جب بارڈر پر کام چلتا ہے تو ہماری زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔ سرحد کی بندش سے ہمارے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔‘‘
دھرنے میں سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شریک تھے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی، حق دو تحریک، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور دیگر جماعتوں نے اس دھرنے کی حمایت کی تھی۔
پک اپ یونین کے صدر کہدہ سعید رشید نے بتایا تھا کہ احتجاجی دھرنے کا مقصد انتظامیہ کی جانب سے کاروبار کی بندش کا فیصلہ ہے۔
کہدہ سعید رشید کے مطابق کنٹانی سرحد سے پیٹرول کے علاوہ ایران سے اشیاء خور و نوش بھی لائی جاتی ہیں۔ کشتیوں کی تعداد کم ہونے سے سامان کم آ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ کنٹانی سے یومیہ 3000 کے قریب کشتیوں میں سامان لایا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے صرف 600 کشتیوں کو کام کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پک اپ گاڑیوں کی کل تعداد 1200 کے قریب ہے جن سے ہزاروں خاندانوں کو روزگار وابستہ ہے۔
دھرنے کے آغاز کے بعد ڈپٹی کمشنر گوادر کی جانب سے جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ایران بارڈر ٹو فائیو زیرو پر ہر قسم کی تجارت اور تجارتی گاڑیوں کی نقل و حمل پر تاحکم ثانی پابندی عائد کی گئی ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان رامدان گبد سرحد کا افتتاح 2020 میں کیا گیا تھا۔ اس سرحدی گزر گاہ کا مقصد پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی سرگرمیاں بڑھانا تھا۔
یہ سرحد گوادر شہر سے لگ بھگ 75 کلومیٹر دور جیونی کے قریب ہے جہاں سے کاروبار کے علاوہ بڑی تعداد میں زائرین بھی ایران کا سفر کرتے ہیں۔ گبد سرحد اور کوسٹل ہائی وی کی بندش کے باعث ایران جانے اور واپس آنے والے زائرین کو بھی مشکلات کا سامنا تھا۔
گوادر کے ایک مقامی صحافی شریف ابراہیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور دھرنے کے شرکا میں مذاکرات کے متعدد راؤنڈ ہوئے تھے۔ اس دھرنے کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔