اسرائیل کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے غزہ میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی پروگرام (یو این آر ڈبلیو اے) کے ہیڈکوارٹر کے نیچے سینکڑوں میٹر لمبی اور جزوی طور پر چلنے والی ایک سرنگ ملی ہے۔
اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ اسے حماس کی طرف سے فلسطینیوں کے لیے مرکزی امدادی ایجنسی کے ناجائز استعمال کا یہ ایک نیا ثبوت ملا ہے۔
فوج کے انجنیئرز ایک ایسے وقت میں غیر ملکی خبر رساں اداروں کے نامہ نگاروں کو وہاں لے کر گئے ہیں جب یو این آر ڈبلیو اے اندورنی تحقیقات کر رہی ہے اور کئی عطیہ دہندگان ملکوں کی جانب سے اسرائیل کے ان الزامات پر فنڈز روک لیے جانے سے یہ امدادی ادارہ بحران میں مبتلا ہے۔
اسرائیل نے اس ادارے پر الزام لگایا ہے کہ اس کے کئی ارکان حماس کے کارندوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔
فلسطینیوں نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ یو این آر ڈبلیو اے کو بدنام کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلا رہا ہے جس میں غزہ کی پٹی میں 13 ہزار افراد کام کرتے ہیں اور یہ ادارہ برسوں سے اس خطے کی اس آبادی کی لائف لائن ہے جو امداد پر انحصار کرتی ہے۔
اس ادارے کی سرگرمیاں انسانی دوستی پر مبنی ہیں۔ یہ اسکول اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز چلاتی ہے۔ سماجی سروسز فراہم کرتی ہے اور امداد تقسیم کرتی ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے کا ہیڈ کوارٹر غزہ شہر کے اس شمالی حصے میں واقع ہے جہاں اسرائیلی فورسز نے چارماہ قبل لڑائی کے آغاز پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو جنوب کی طرف فرار ہونا پڑا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے اس ادارے کے مرکز کے احاطے میں قائم ایک اسکول کے قریب ایک راہداری کے ذریعے نامہ نگار اسرائیلی فوجیوں کی کڑی نگرانی میں سرنگ میں داخل ہوئے۔
سرنگ دکھانے کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل نے بتایا کہ 20 منٹ کے سرنگ کے اندر اس سفر میں نامہ نگار گرمی کے ماحول میں تنگ اور کبھی کشادہ راستے سے ہوتے ہوئے عالمی امدادی ادارے کے ہیڈکوارٹر کے نیچے پہنچ گئے۔
سرنگ کے بارے میں فوج نے بتایا کہ وہ 700 میٹر لمبی اور 18 میٹر کی گہرائی میں ہے۔
بعض مقامات پر وہ دو حصوں میں تقیسم ہو جاتی ہے جس سے اطراف کے کمروں کا پتہ چلتا ہے۔
وہاں دفتر کے لیے بھی ایک مقام تھا جہاں فولادی الماریاں رکھی ہوئی تھیں جو کھلی ہوئیں تھیں اور خالی تھیں۔
وہاں ایک ٹائلوں والا ٹائلٹ بھی تھا۔ ایک بڑے حصے میں کمپیوٹر سرورز رکھے ہوئے تھے۔ جب کہ ایک اور حصے میں صنعتی معیار کی بیٹریاں پڑی تھیں۔
فوجی ترجمان کا دعویٰ تھا کہ حماس کی جانب سے سب کچھ یہاں سے کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جن سرنگوں سے وہ گزر کر آئے ہیں، ان کے لیے بجلی یہاں سے فراہم ہوتی تھی۔
ان کا دعویٰ تھا کہ یہ سرنگ انٹیلی جینس کی مرکزی کمانڈ میں سے ایک ہے۔ ان کے بقول یہ جگہ حماس کے انٹیلی جینس یونٹوں میں سے ایک ہے جہاں سے انہوں نے زیادہ تر جنگوں کی کمانڈ کی۔
فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ حماس کے کارکن اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کے پیشِ نظر یہاں سے نکل گئے تھے۔
انہوں نے پہلے ہی مواصلاتی کیبلز کاٹ دیں تھیں جو زمین کے اوپر تھیں۔
انہوں نے یو این آر ڈبلیو اے کے ہیڈکوارٹرز کے تہہ خانے کے فرش سے گزرنے والی کیبلز دکھائیں۔
سرنگ کے کئی حصے اکھڑے ہوئے تھے اور ان میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہوا تھا۔
یواین آر ڈبلیو اے نے کہا ہے کہ اس نے جنگ شروع ہونے کے پانچ دن کے بعد 12 اکتوبر کو ہیڈکوارٹر خالی کر دیا تھا۔
اس لیے وہ اسرائیلی فوج کے تلاشی سے متعلق دعوؤں کی تصدیق یا تبصرہ کرے سے قاصر ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یو این آر ڈبلیو اے کے پاس فوجی اور سیکیورٹی امور کی مہارت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس نوعیت کا فوجی معائنہ کر سکے کہ عمارت کے نیچے کیا ہے یا کیا ہو سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں جب کبھی بھی یو این آر ڈبلیو اے کے قریب یا اس کے نیچے کوئی گڑھا دیکھا گیا، فوری طور پر تنازع کے دونوں فریقوں یعنی غزہ میں حماس اور اسرائیلی فوج کو احتجاجی خطوط بھیجے جاتے تھے۔
سرنگ کے دورے کے دوران صحافیوں کو فوج نے ملٹری انٹیلی جینس سے متعلق اشیا مثلاً، نقشوں، اور انہیں لے جانے والی بکتر بند گاڑیوں کے بعض آلات کی تصویریں لینے کی اجازت نہیں دی۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا۔