کراچی میں پولیس تھانوں، اسکولوں اور کالجوں کی سیکورٹی پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ جمعے کو دو گھنٹے کی مختصر مدت کے دوران ایک تھانے، ایک کالج اور ایک اسکول پر دستی بموں کے حملوں سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
صورت حال کے پیش نظر، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی فوری ہدایات پر اسکولوں کی سیکورٹی سے متعلق پلان تشکیل دے دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ اسکولوں کی سیکورٹی کو جلد از جلد یقینی بنایا جا رہا ہے۔
تعلیمی ادارں کی سیکورٹی جمعے کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنی۔ اپوزیشن نے حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کی جبکہ حکومت کی جانب سے اپنا دفاع جاری رہا۔
پہلا حملہ صبح نو بج کر انیس منٹ پر ابوالحسن اصفہانی روڈ کے مبینہ ٹاؤن تھانے پر ہوا۔ ملزمان کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مل گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو ملزمان ایک ہی موٹرسائیکل پر سوار تھے جبکہ تیسرا ایک اور موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ ملزمان دستی بم تھانے میں پھینکا اور فرار ہوگئے۔
دستی بم حملے میں ایک کانسٹیبل زخمی ہوا، جبکہ تھانے میں کھڑی ایک گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ سیکورٹی ادارے فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی تلاش اور واقعہ کی مزید تحقیقات میں مصروف ہیں۔
دوسرا حملہ کریم آباد پر واقع اپوا گرلز کالج کے قریب ہوا۔ یہاں بھی ملزمان موٹر سائیکل پر سوار تھے جنہوں نے کریم آباد فلائی اوور سے دستی بم پھینکا جو پولیس کی ابتدائی تحقیق کے مطابق 250گرام تھا۔ حملے کے نتیجے میں کوئی جان نقصان نہیں ہوا۔
کالج کے پرنسپل نسیم زیدی کے مطابق دھماکے کے بعد طالبات میں خوف و ہراس پھیل گیا جبکہ ممکنہ خدشے کے پیش نظر طالبات کو واقعے کے کچھ دیر بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی اور کالج کو بند کردیا گیا۔
تیسرا دستی بم حملہ 11 بج کر 19 منٹ پر نارتھ ناظم آباد بلاک اے میں اصغر علی شاہ کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب واقع ایک اسکول کے باہر ہوا۔ تاہم، اس حملے میں بھی کوئی بڑا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔
گزشتہ سال بھی گلشن اقبال اور نارتھ ناظم آباد میں واقع دو اسکولوں کو اسی طرح دستی بموں کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور خان سیال نے فوری طور پر واقعات کی رپورٹ طلب کرلی۔
مذکورہ حملوں کے بعد کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی سمیت اسکولوں کی سیکورٹی بڑھا دی گئی۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تمام داخلی راستوں پر سیکورٹی گارڈز کی تعداد بڑھا دی ہے، جبکہ متعلقہ تھانوں سے پولیس کا گشت بڑھانے کی بھی درخواست کردی گئی ہے۔
ادھر کراچی پولیس چیف مشتاق مہر کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دستی بم حملوں میں ایک ہی گروپ ملوث ہے، ملزمان چھوٹے حملوں کے ذریعے شہریوں کو خوفزدہ کر کے کوئی بڑی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ تمام اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے جبکہ جگہ جگہ ناکا بندی بھی کردی گئی ہے۔
سندھ اسمبلی میں بھی تعلیمی اداروں کی سیکورٹی پر بحث
جمعہ کو سندھ اسمبلی کا اجلاس بھی سارا وقت تعلیمی اداروں کی سیکورٹی پر بحث کرتے گزرا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رکن اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کا کہنا تھا کہ اگر اسکولوں میں بچے محفوظ نہیں تو اسمبلی کی ساری کارروائی بے معنی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت سیکورٹی کے معاملے پر تعاون نہیں کر رہی جس کے جواب میں سینئر وزیر نثار کُھہڑو کا کہنا تھا کہ حکومت بخوبی اپنی ذمے داری سے آگاہ ہے۔تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے جا رہے ہیں۔