امریکہ میں حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر شوٹنگ کے واقعات ہوئے جن میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔ ایسے ہی بڑے پیمانے پرکیے جانے والے حملوں کے بارے میں ایک نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کمیونٹیز سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تشدد کے خطرے کی علامات کو دیکھتے ہوئے جلد مداخلت کریں تاکہ اسے ہونے سے روکا جا سکے ۔
امریکی سیکرٹ سروس کے ’’نیشنل تھریٹ اسسمنٹ سینٹر‘‘ کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کاروباری اداروں کو بھی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ کام کی جگہوں پر تشدد سے بچاؤ کے منصوبوں پر سوچ بچار کریں ۔ اس رپورٹ میں گھریلو تشدد، بدسلوکی اور اجتماعی حملوں کے درمیان تعلق کو بھی نمایاں کیا گیا ہے ۔
امریکی سیکرٹ سروس کی اس رپورٹ میں جنوری 2016 سے دسمبر 2020 تک پانچ سال کے عرصے میں کاروباروں ، اسکولوں یا گرجا گھروں جیسے مقامات پر کیے گئے 173 بڑے حملوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہےجب امریکہ میں ہلاکت خیز حملوں کے ساتھ نئے سال آغازہوا ۔ بڑے پیمانے پر کیے جانے والے چھ حملوں میں39 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک مونٹیرےپارک، کیلی فورنیا میں پیش آیا جس میں ایک ڈانس ہال میں گیارہ افراد ہلاک ہوگئے۔
مرکز کی ڈائریکٹر لینا العصری نے رپورٹ کے اجراء سے قبل ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ایسے واقعات اب اکثر رونما ہونے لگے ہیں ۔العصری کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ حالیہ حملوں کے تناظر میں تیار نہیں کی گئی ۔ ان کا کہنا ہےتاہم بڑے پیمانے پر شوٹنگ کے واقعات کا تجزیہ کرنے سے صورتحال میں یکساں عوامل کارفرما نظرآتے ہیں ۔
بڑے پیمانے پر شوٹنگ کے یہ واقعات پیش کیوں آتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے مرکز کی طرف سے ایک سلسلے کا آغاز کیا گیا اور یہ رپورٹ اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ پچھلی رپورٹوں میں 2017، 2018 اور 2019 کے برسوں میں پیش آنے والے مخصوص واقعات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تازہ جائزے میں کئی سالوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیاہے اور بڑے پیمانے پر حملہ کرنے والوں کی سوچ اور رویے کا گہرا مشاہدہ شامل ہے
سینٹر کی جانب سے کسی بھی بڑے حملے سے مراد یہ ہے کہ اس میں تین یا اس سے زیادہ افراد کو نقصان پہنچا ہو اور ان میں حملہ آور شامل نہ ہو ۔ جائزے کے مطابق تقریباً تمام حملوں میں شوٹنگ کا ذمے دار واحدشخص تھا ۔ حملہ آوروں میں 96 فیصد مرد تھے اور حملہ آوروں کی عمریں 14ے 87 سال کے درمیان تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً دو تہائی حملہ آوروں کے رویے یا اظہار کی نوعیت تشویشناک تھی جس کا فوری طور پر نوٹس لینا ضروری تھا ۔ سینٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ (مخصوص رویوں اور خیالات ) کے بارے میں پائے جانے والے یہ خدشات اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں، آجروں، اسکول کے عملے یا والدین کے ساتھ شیئر کیے گئے لیکن تمام کیسز میں صرف 20 فیصد کیسز میں ایسے تشویشناک رویےکے بارے میں کسی بھی ایسے فرد یا ذمے دار کو آگاہ نہیں کیا گیا جو صورتحال پر قابو پانے کے لیے اپنی پوزیشن استعمال کرتے ہوئے ضروری اقدامات اٹھاتے ۔
رپورٹ میں گھریلو تشدد اور بدسلوکی پر بھی زیادہ توجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ توجہ طلب یہ نکتہ ہے کہ جن حملہ آوروں کے بارے میں تجزیہ کیا گیا ان میں سے تقریباً نصف کو گھریلو تشدد، بدسلوکی یا دونوں رویوں کا سامنا رہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ بدسلوکی پر مبنی خیالات رکھنے والے سبھی متشدد نہیں ہیں لیکن خواتین کو دشمن قرار دینے یا خواتین کے خلاف تشدد کا مطالبہ کرنے کا نکتہ نظر تشویش کا باعث ضرور ہے ۔
سینٹر کے مطالعہ میں جن حملوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سے تقریباً نصف حملوں کا ہدف کاروباری مقام تھے اور حملہ آورکا تعلق اس کاروبار کے ساتھ، یا اس میں کام کرنے والے کسی ایک ملازم، صارف یا سابق آجر کے طور پر پہلے سے تھا۔ رپورٹ میں اس جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ کام کی جگہ کے تنازعات یا پڑوسیوں کے ساتھ جھگڑے جیسی شکایات نے بھی بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملوں میں کسی حد تک کردار ادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً آدھے حملےمکمل طور پر یا جزوی طور پر کسی شکایت کا نتیجہ تھے۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ کام کی جگہوں پر تشدد کی روک تھام کے منصوبوں کو متعارف کرایا جائے اور ان کے تحت رویے کے بارے میں خطرے کی جانچ کے پروگرام تشکیل دیے جائیں ۔پھر کاروبا روں کو علاقے کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھی فعال تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تشدد کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش کے سد باب کے لیے باہمی تعاون سے کام کر سکیں چاہے یہ تشویش کسی موجودہ ملازم، سابق ملازم، یا کسی بھی صارف کے بارے میں ہو۔
وی او اے نیوز/ایسوسی ایٹڈپریس