امریکی ریاست پنسلوانیا کی یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ابرام سن کینسر سینٹرکے سائنسدان گزشتہ 20 برس سے لیوکیمیا کے علاج کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ اس کینسر سے متاثرہ مریض کے جسم سے خون کے خاص خلیے لے کر انہیں کینسر کے خلاف بطور علاج استعمال کرنے پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان خاص خلیوں کو ٹی سیل کانام دیا گیا ، جنہیں پہلے مریض کے جسم سے نکالا جاتا ہے اور بعد میں کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے کے لیے جسم میں دوبارہ داخل کیا جاتا ہے۔
خلیوں کی تبدیلی کا یہ عمل کینسر کے خلیوں کے خاتمے کے لیے اتنا کامیاب رہا کہ سائنسدانوں نے ان ٹی سیلز کو عادی قاتل کا نام دیا ہے۔ اس تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر کارل جون کا کہنا ہے کہ اس تجربے کا اہتمام کرنا ایک جرات مندانہ اقدام تھا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔
اس سلسلے میں جن تین مریضوں پر یہ تجربہ کیا گیا وہ خون کے کینسر کی آخری سٹیج پر تھے اور ان کے بچنے کی امید بہت کم تھی۔ جینیاتی خلیوں پر کام کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تجرباتی طور پر مریضوں کے جسموں میں ٹی سیلز داخل کیے گئے۔ یہ ٹی سیلز چھ ماہ تک مریضوں کے جسموں میں مؤثر رہے اور چن چن کر کینسر کے خلیوں کو ختم کرتے رہے۔
بروس لیوائن بھی اس تحقیق میں شامل رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی دوا ہے جو دیر تک موثر رہتی ہے اور خون میں شامل مہلک خلیوں کا خاتمہ کرتی ہے۔
امریکہ میں کینسر کی روک تھام پر کام کرنے والی ایک تنظیم امریکن کینسر سوسائٹی اس تحقیق کو مفید تو قرار دے رہی ہے اور اس کا کہناہے کہ اس بارے میں مزید تجربات کیے جانے چاہیں۔
جن تین مریضوں پر اس کا تجربہ کیا گیا تھا ان میں سے دو کینسر سے صحتیاب ہو چکے ہیں۔ جب کہ تیسرے مریض میں گو کہ ابھی بھی کینسر کے کچھ آثار باقی ہیں، مگر وہ بھی صحتیاب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف اس طریقہ ِ علاج کے مضر اثرات بھی ہیں جیسا کہ تیز بخار، امراض قلب اور سانس کا پھول جانا وغیرہ ۔
سائنس دان یہ بھی دیکھ رہےہیں کہ جو مریض اس طریقہ ِ علاج سے صحتیاب ہوئے ہیں، ان کا اس مرض میں دوبارہ مبتلا ہونے کا کتنا امکان ہے۔