رسائی کے لنکس

ہارٹ آف ایشیا، استنبول پراسس کانفرنس پیر سے اسلام آباد میں


پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری
پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری

پاکستان اور افغانستان رواں سال اس کانفرنس کے ہونے والے وزارتی اجلاس کے لیے مشاورت میں مصروف ر ہے ہیں جب کہ چین نے بھی اس کے لیے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔

ایشیا کے قلب یعنی ہارٹ آف ایشیا۔استنبول پراسس کے اعلیٰ حکام کا اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس کی مشترکہ صدارت پاکستان اور افغانستان کے عہدیدار کریں گے۔

پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری اور افغان نائب وزیرخارجہ حکمت خلیل کرزئی کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں دیگر 12 رکن ممالک اور 16 حامی ملکوں کے مندوبین کے علاوہ 12 علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شریک ہو رہے ہیں۔

ہارٹ آف ایشیا-استنبول پراسس کا آغاز 2011ء میں کیا گیا تھا جس کا مقصد خطے خصوصاً افغانستان میں قیام امن کے لیے رکن اور حامی ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔

پیر کو ہونے والی کانفرنس میں گزشتہ سال اکتوبر میں بیجنگ میں ہونے والے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد اور پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ رواں سال ہونے والے وزارتی اجلاس کے لیے لائحہ عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

پاکستان اس عزم کا اظہار کرتا آیا ہے کہ وہ خطے خصوصاً افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اپنی حمایت اور کاوشیں جاری رکھے گا۔

رواں سال ہارٹ آف ایشیا۔ استنبول پراسس کا موضوع "دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون اور اقتصادی روابط میں فروغ" ہے۔

پاکستان اور افغانستان رواں سال اس کانفرنس کے ہونے والے وزارتی اجلاس کے لیے مشاورت میں مصروف رہے ہیں جب کہ چین نے بھی اس کے لیے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ افغان صدر اشرف غنی اپنے ملک میں امن و خوشحالی کے لیے خود بھی کئی اقدامات کر رہے ہیں لیکن انہیں پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کے تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے اس میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔

"ان (افغان صدر اشرف غنی) کی پالیسی ہے کہ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں اور ان کا دوسروں پر انحصار ختم کیا جائے اور اس میں جو دوسرے ممالک ہیں جو کل سے آج تک افغانستان کے مدوجزر میں شریک رہے ہیں وہ سارے مل کر ہماری تعمیر نو اور خوشحالی میں ہمارا ساتھ بٹائیں اور پاکستان کا اس میں کلیدی کردار ہے اور اشرف غنی چاہتے ہیں کہ پاکستان اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ سارے اس بار ے میں سوچیں گے اور پالیسی بنائیں گے کہ پاکستان اور افغانستان میں تعلقات کو بہتر کیے جائیں اور افغانستان کے امن و امان کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کیا ترجیحات ہو سکتی ہیں"۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی و عسکری سطح پر بھی حالیہ مہینوں کے دوران تعلقات میں قابل ذکر بہتری دیکھی گئی ہے جسے مبصرین دونوں ملکوں اور خطے کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG