طالبان شدت پسندوں نے افغانستان کی لڑائی میں حملے تیز کر دیے ہیں، جب کشیدگی کے شکار جنوبی صوبہٴ ہلمند میں افغان سکیورٹی فورس کےتقریباً 57 اہل کار ہلاک اور 37 زخمی ہوئے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کے بعد لڑائی میں شدت آگئی ہے، جب طالبان نے تین اضلاع میں مربوط حملوں کا ایک سلسلہ جاری رکھا، جن میں نادِ علی، گریشک اور مرجع شامل ہیں۔
میجر جنرل عصمت اللہ دولتزئی نے بتایا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں نادِ علی اور گریشک میں واقع ہوئیں۔
باغیوں نے صوبائی دارلحکومت لشکرگاہ میں رات بھر لڑائی جاری رکھی، جہاں باغیوں نے مرجع سے ملنے والی مرکزی سڑک پر واقع سکیورٹی کی چار چوکیوں پر قبضہ جما لیا ہے۔
اعلیٰ افغان کمانڈروں نے بتایا ہے کہ اس وقت لشکرگاہ میں شدید لڑائی جاری ہے۔
لیکن، اُنھوں نے طالبان کو پسپا کرنے کا عہد کر رکھا ہے، اور کہا ہے کہ قومی سلامتی کی افواج نے باغیوں کو شدید جانی نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم، اس ضمن میں، کوئی اعداد جاری نہیں کیے گئے۔
ہیلمند افغانستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جہاں پوست کی کاشت ہوتی ہے۔
نئے سربراہ کے طور پر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی تقرری کے بعد طالبان نے حملے تیز کردیے ہیں۔ اُن کے پیش رو، ملا منصور 21 مئی کو ہمسایہ پاکستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ ہیب اللہ کی قیادت میں اس سال موسم گرما کے دوران افغانستان میں لڑائی اور خونریزی میں اضافہ ہوگا، جنھیں عام طور پر ایک قدامت پسند عالم ِدین سمجھتا جاتا ہے، چونکہ وہ میدان جنگ کے ذریعے اپنے اختیار کو تقویت دینا چاہین گے، تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ اُن کے پیش رو کی ہلاکت سے طالبان کمزور پڑ گئے ہیں۔
ایک اہم پیش رفت کے طور پر پیر کو طالبان نواز علما کی ایک کلیدی کونسل نے ہیبت اللہ کی بیعت کا اعلان کیا۔
’وائس آف امریکہ‘ کو بھجے گئے ایک بیان میں کونسل کے سربراہ مولوی احمد ربانی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اعلیٰ عہدے کے لیے ہیبت اللہ کے متفقہ انتخاب کو مدِ نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ کونسل نے منصور کے نام کی توثیق سے انکار کر رکھا تھا، جن کی قیادت پر طالبان کے حلقوں کے اندر بھی اختلاف تھا۔