ترک پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد سوئیڈن مغربی اتحاد نیٹو میں شمولیت کے مزید قریب آ گیا ہے۔
رواں برس جولائی میں نیٹو کے اجلاس کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوان سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت پر اعتراض سے دست بردار ہو گئے تھے۔ البتہ انہوں نے پارلیمنٹ سے توثیق کے لیے کئی ماہ کا عرصہ لگایا۔
ترک پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کی جانب سے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کے لیے بنائے گئے پروٹوکول کی ترکیہ کی پارلیمنٹ سے توثیق لینا ہو گی اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اسے ایوان میں پہنچنے میں کتنا مزید وقت لگتا ہے۔
فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سوئیڈن اور فن لینڈ نے دہائیوں سے اپنی غیر جانب داری کی پالیسی ترک کرتے ہوئے مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ رواں برس ترکیہ کی پارلیمنٹ سے توثیق ہونے کے بعد فن لینڈ پہلے ہی نیٹو کا 31 واں رکن بن چکا ہے۔
تاہم سوئیڈن کو رکنیت کے مراحل میں طے کرنے میں اتنا طویل عرصہ کیوں لگ رہا ہے؟ صدر ایردوان کے مؤقف میں تبدیلی کیسے آئی؟ یہاں اسی بارے میں تفصیلات فراہم کی جا رہی ہیں۔
ترکیہ نے تاخیر کیوں کی؟
ترکیہ کی جانب سے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کے پیچھے کرد علیحدگی پسندوں سے متعلق اس کے تحفظات ہیں۔ ترکیہ کے نزدیک سوئیڈن ان کرد عسکریت پسندوں اور دیگر گروپس سے متعلق نرم رویہ رکھتا ہے جنھیں وہ اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
کرد عسکریت پسندوں میں کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جو گزشتہ 39 برس سے ترکیہ میں شورش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 2016 میں رجب طیب ایردوان کے خلاف ہونے والی بغاوت کی ناکام کوشش سے جڑے افراد سے متعلق بھی ترکیہ سوئیڈن پر سوال اٹھاتا رہا ہے۔
ترکیہ، سوئیڈن اور فن لینڈ نے گزشتہ برس ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت انقرہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین سخت کرنے اور شدت پسند تنظیموں کی حمایت پر آٹھ برس قید کی سزا جیسے اقدامات کیے گئے تھے۔
تاہم سوئیڈن کے دار الحکومت اسٹاک ہوم میں ترکیہ مخالف اور اسلام مخالف مظاہروں میں قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔
اگرچہ سوئیڈش حکومت نے ان واقعات کی مذمت کی تھی لیکن ترکیہ نے مسلمان مخالف جذبات کے اظہار کے لیے گنجائش فراہم کرنے والے سوئیڈن کے آزادیٔ اظہار سے متعلق قوانین پر کڑی تنقید کی تھی۔
ترکیہ نے اعتراض واپس کیوں لیا؟
سوئیڈن نے انقرہ کے سیکیورٹی خدشات دور کرنے کے لیے قانون سازی کی جب کہ نیٹو نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک خصوصی کو آرڈینیٹر کا تقرر کردیا۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹالٹن برگ نے رواں برس جولائی میں کہا تھا کہ سوئیڈن نے ترکیہ کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق حمایت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بعدازاں سوئیڈن نے بھی ترک شہریوں کے لیے یورپ میں بغیر ویزہ سفر اور ترکیہ کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق بہتر معاہدے پر کام کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ترکیہ کی یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق پیش رفت 2018 میں ملک میں جمہوری اقدار کی کمزوری اور انسانی حقوق سے متعلق خراب ریکارڈ کے باعث تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔
رواں ماہ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے واضح طور پر سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کو امریکہ سے ایف 16 طیاروں کی خریداری سے جوڑ دیا تھا اور ساتھ ہی کینیڈا اور نیٹو اتحادیوں سے ترکیہ پر اسلحہ خریداری سے متعلق عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
منگل کو پارلیمانی کمیٹی سے سوئیڈن کی نیٹو رکنیت سے متعلق ہونے والی بحث میں اپوزیشن کے قانون ساز اوگوز کعان سلیجی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آیا حکومت کو امریکہ سے ایف 16 طیاروں سے متعلق یقین دہانی مل گئی ہے؟
صدر بائیڈن کی حکومت ترکیہ کو طیاروں کی فروخت کی حامی ہے تاہم امریکی کانگریس میں ترکیہ کو اسلحہ فروخت کرنے کی سخت مخالفت پائی جاتی ہے۔
ترکیہ اپنے فضائی بیڑے کو جدید اور مزید طاقت ور بنانے کے لیے امریکہ سے 40 نئے ایف سولہ جنگی طیارے خریدنا چاہتا ہے۔
اب کیا ہو گا؟
ترکیہ کی پارلیمانی کمیٹی نے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت سے متعلق پروٹوکول تیار کرلیے ہیں۔ ترکیہ کی جنرل اسمبلی ان پروٹوکولز پر بحث کے بعد ان کی منظوری دے گی جس کے بعد صدر طیب ایردوان کے دستخط ہوتے ہی یہ پروٹوکولز موثر ہوجائیں گے۔
یہ واضح نہیں کہ جنرل اسمبلی پارلیمانی کمیٹی کے منظور کردہ بل پر بحث کا آغاز کب کرے گی۔
طیب ایردوان اور ان کی اتحادی پارٹی 600 رکنی ایوان میں اکثریت رکھتے ہیں۔ تاہم ایردوان کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ارکان بل کے بارے میں اپنی رائے سے فیصلہ کریں گے۔
صدر ایردوان کے قوم پرست اتحادی اب بھی نیٹو میں سوئیڈن کی شمولیت سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور سوئیڈن پر پی کے کے سے متعلق ترکیہ کو درپیش خطرات کے بارے میں لاتعلق رہنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
رواں ہفتے کرد عسکریت پسندوں نے شمالی عراق میں ترکیہ کے ایک اڈے میں در اندازی کی کوشش کی تھی جس میں دو روز تک جاری رہنے والے تصادم میں 12 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
ترکیہ میں اسلام پسند جماعتوں کا خیال ہے کہ مغربی اقوام نے غزہ میں اسرائیل کی مسلح کارروائیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس لیے ممکنہ طور پر وہ بل کی مخالفت کریں گی۔
ہنگری کیا کرے گا؟
ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان کو نیٹو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا واحد اتحادی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جولائی 2022 میں سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی تھی اور یہ الزام عائد کیا تھا کہ سوئیڈش سیاست دان ہنگری میں جمہوریت کی صورتِ حال سے متعلق ’دروغ گوئی‘ سے کام لے رہے ہیں۔
ہنگری کے وزیرِ اعظم یا ان کے کسی حکومتی عہدے دار نے تاحال یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ نیٹو میں شمولیت کے بدلے سوئیڈن سے اپنے کن تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ہنگری نیٹو میں شمولیت سے متعلق اپنے ویٹو کے اختیار کو یورپی یونین سے رعایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یورپی یونین نے ہنگری میں اقلیتی حقوق اور رول آف لا سے متعلق مختلف تحفظات کی بنیاد پر اس کے اربوں ڈالر کے فنڈز منجمد کر رکھے ہیں۔
واضح رہے کہ نیٹو اتحاد میں کسی نئے رکن ملک کی شمولیت کے لیے اس کے تمام ارکان کی منظوری ضروری ہوتی ہے اور کوئی ایک رکن ملک بھی ارکان میں اضافے کو ویٹو کر سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق انقرہ کی جانب سے سوئیڈن کو نیٹو میں شامل کرنے کی منظوری کے بعد ہنگری بھی اس میں مزید تاخیر نہیں کرے گا۔ ہنگری میں اپوزیشن سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی حامی ہے اور اس کے مطابق وزیرِ اعظم اوربان اس معاملے میں ترکیہ کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔
اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔
فورم