ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان، زچگی کے دوران شرح اموات کم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جانب سے رکھے گئے ہزار سالہ ترقیاتی ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہ سکتا ہے۔ یہ ہدف 2030 تک ایسی اموات کی تعداد گھٹا کر فی لاکھ 70 تک لانے کا منصوبہ ہے۔
تاہم 2019 میں ہونے والے قومی سروے کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ پیدائش میں 186 اوسط شرح اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ شرح گزشتہ سالوں کے مقابلے میں تو کافی کم ہو چکی ہے لیکن اسے اب بھی مزید کم کرنے کی ضرورت ہے۔
قومی سروے میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ایک لاکھ پیدائش میں ایسی اموات کی شرح 157 اور خیبر پختونخواہ میں 165 ہے، جب کہ سندھ میں 224 اور بلوچستان میں یہ شرح 298 فی ایک لاکھ ریکارڈ کی گئیں جو کہ سب سے زیادہ ہیں۔ جب کہ گلگت بلتستان میں یہ شرح 157 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ شرح 104 فی ایک لاکھ ریکارڈ کی گئی۔
زچگی کے دوران ہلاکتوں کی شرح دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ اعداد و شمارکے مطابق دیہی علاقوں میں یہ تناسب شہروں سے 26 فیصد زیادہ ہے۔
دیہی علاقوں میں یہ شرح 199 فی ایک لاکھ، جب کہ شہری علاقوں میں 158 فی ایک لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ اس طرح پاکستان میں زچگی کے دوران مجموعی اموات کی شرح 1990 میں 234 تھی جو اب کم ہو کر 186ہو چکی ہے۔
سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان آئندہ ایک عشرے میں اس شرح کو 138 فی ایک لاکھ تک لانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ماہرین زچگی کے دوران اموات ان اموات کو قرار دیتے ہیں جو حمل کے دوران یا بچے کی پیدائش یا حمل کے خاتمے کے 42 روز کے اندر واقع ہوں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ زچگی کے دوران اموات کی بنیادی وجہ اینیمیا اور خون کی کمی سے منسلک بیماریوں کو قرار دیتے ہیں۔ لیاقت نیشنل اسپتال کراچی کی سنیئیر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر فوزیہ اکمل کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں اکثر گھر پر ہی ڈلیوری کروائی جاتی ہے۔ اور غیر تربیت یافتہ عملہ زچہ و بچہ کی دیکھ بھال اور حفظان صحت کی اہمیت سے بہتر طور پر آگاہ نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر فوزیہ اکمل نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے وقت زیادہ تر پیچیدگیاں ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوتی ہیں۔ جب کہ اب کرونا کی وجہ سے بھی بچے کی پیدائش پر ماؤں کی اموات کے واقعات ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی روک تھام کے لئے سب سے اہم کام شعور اجاگر کرنا ہے۔ تاکہ حمل کے دوران طبی معائنہ اور پھر اسپتال میں ڈلیوری کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ایسے تربیت یافتہ افراد کی بھی ضرورت ہے جو لوگوں کو اس موقع پر احتیاطی تدابیر کے متعلق تربیت دے سیکں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں کی زیادہ تعداد اور غذائیت کی کمی سے ماؤں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کے خون میں ہیموگلوبن کی کمی کو دور کیا جائے، اور انہیں مناسب خوراک فراہم کی جائے۔ اگر ماں کی صحت اچھی ہو گی تو ڈلیوری کے وقت کی پیچیدگیوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔
تاہم سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق شعور بڑھا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ سروے کے مطابق ملک میں گھر کی بجائے اسپتال میں ڈلیوری کی شرح 14 فیصد سے بڑھ کر 71 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
سروے میں زچگی کے دوران اموات میں جن چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ماحولیاتی مسائل، ڈپریشن، طبی سہولتوں یا ان تک رسائی کی کمی اور زیادہ شرح پیدائش شامل ہیں، جس کے لیے فیملی پلاننگ کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں گزشتہ 20 سال کے دوران 395 ہلاکتوں فی ایک لاکھ پیدائش سے کم ہو کر 2019 کے اختتام پر 163 ریکارڈ کی گئی۔ تاہم یہ تعداد اب بھی عالمی معیار سے کافی بلند ہے جسے کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔