|
ہندو قوم پرستی یا ہندوتوا کے نظریے کو ایک زمانے تک بھارت میں چند حلقوں تک محدود فکر سمجھا جاتا تھا لیکن آج یہ ملکی سیاست کا محور بن چکا ہے۔
ہندوتوا کو بھارت کی قومی سیاست کا مرکز و محور بنانے میں اہم ترین کردار وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ادا کیا ہے جو بیک وقت ملک کے مقبول ترین اور متنازع ترین سیاسی رہنما ہیں۔
نریندر مودی کا تعلق حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے لیکن ان کے سیاسی فلسفے پر سب سے زیادہ اثر سو برس قبل قائم ہونے والی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہے۔
مودی اپنی نوجوانی میں آر ایس ایس میں شامل ہوگئے تھے۔ سن 1960 میں انہیں آر ایس ایس میں لانے والے 76 سالہ امبلال کوشتی کا کہنا ہے "ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں اتنی طاقت ملے گی۔"
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی فرقہ ورانہ کشیدگی کے بعد ہندوستان میں جس وقت مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد کی تبلیغ کررہے تھے، اس سے چند دہائیوں قبل آر ایس ایس پوری قوت کے ساتھ ایک ہندو ریاست یا ہندو راشٹر کا نعرہ لے کر اٹھی تھی۔
مہاتما گاندھی 1948 میں آر ایس ایس کے ایک سابق کارکن ناتھو رام گوڈسے کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران نریندر مودی نے جو اقدامات کیے ہیں اس میں آر ایس ایس سے حاصل ہونے والی سیاسی و روحانی تربیت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس عرصے میں بھارت ایک عالمی قوت کے طور پر ابھرا اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا ہے۔
ساتھ ہی ان کے دورِ حکومت میں بھارت کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے وزیرِ اعظم مودی نے ریاست اور مذہب کے درمیان حائل لکیر کو بہت مدھم کردیا ہے جب کہ میڈیا، سیاسی مخالفین اور عدالتوں کو درپیش خدشات میں اضافے کی وجہ سے بھارت میں جمہوریت خطرے میں ہے۔
بھارت میں عام انتخابات شروع ہو چکے ہیں اور 73 سالہ مودی مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ اب تک کے جائزوں کے مطابق مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کے لیے الیکشن میں کامیاب ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ ان کا مقابلہ اس وقت ایک بڑی مگر تقسیم شدہ اپوزیشن سے ہے۔
مودی کے حامی اور ناقد دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ مودی نے ایک ارب 40 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک میں ہندو قوم پرستی کو نہ صرف قابلِ قبول اور مقبول بنایا ہے بلکہ اس کے استعمال سے اپنے اقتدار کو بھی طول دیا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جو دہائیوں مختلف ثقافتوں اور مذاہب پر مشتمل اپنے متنوع معاشرے کو قابلِ فخر قرار دیتا تھا۔
مبصرین کے مطابق مودی کی حکمتِ عملی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مودی نے 80 فی صد ہندو آبادی رکھنے والے ملک میں اپنا ووٹ بینک بنایا ہے.
وزیرِ اعظم مودی کے سوانح حیات لکھنے والے مصنف نلنجن مکھپادھیائے کا کہنا ہے کہ مودی 100 فی صد آر ایس ایس کی پراڈکٹ ہیں اور اسی کے مقاصد پورے کر رہے ہیں۔
ہندو اتحاد
بھارت کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں کئی نوجوان لڑکے ایک دائرے میں بیٹھ کر آر ایس ایس کی سنسکرت میں مرتب کی گئی کچھ دعائیں پڑھ رہے ہیں۔
وہ گہرا سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام ہندو بھارت ماتا کے بچے ہیں اور ہم نے اپنے مذہب کے تحفظ کا عہد لیا ہے۔
لگ بھگ 65 برس قبل مودی بھی ایسے ہی نوجوانوں میں شامل تھے۔ وہ 1950 میں ایک پس ماندہ برادری میں پیدا ہوئے تھے۔ آر ایس ایس سے ان کا پہلا تعارف اس تنظیم کی تربیتی نشستوں کے ذریعے ہوئے تھا جنہیں ’شاکھا‘ کہا جاتا ہے۔ ان نشستوں میں شامل نوجوانوں کو مذہبی تعلیم اور جسمانی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
مودی 1970 کی دہائی تک آر ایس ایس کے ایک فعال کارکن بن چکے تھے اور اپنی بائی سائیکل پر آر ایس ایس کے لیے پرچار شروع کرچکے تھے۔
کوشتی کا کہنا ہے کہ اس وقت تک ہندو کہیں جمع ہونے سے ڈرتے تھے۔ ہم انہیں متحد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آر ایس ایس 1925 میں قائم ہوئی تھی۔ اپنے جاری کردہ پروگرام کے مطابق اس تنظیم کا مقصد ہندوؤں کو مضبوط بنانا تھا۔
آر ایس ایس کے مطابق ہندوستانی تہذیب اور ہندومت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کا نظریہ ہندو برتری پر مشتمل ہے۔
آج آر ایس ایس کے کئی ذیلی گروپ بن چکے ہیں۔ اس کے نیٹ ورک میں طلبہ اور کسان یونینز شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کئی ایسے نجی گروپ بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جن پر تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک کو طاقت اور قائم رہنے کا جواز بی جے پی سے حاصل ہوتا ہے جس نے خود آر ایس ایس ہی کی فکر سے جنم لیا ہے۔
گاندھی کے قاتل کے آر ایس ایس سے تعلق اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی سے متعلق اس تنظیم پر کئی سوالات تھے۔
دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتوں پر تحقیق کرنے والے کرسٹوفر جیفرلوٹ کے مطابق مودی سے پہلے بی جے پی کو بھارتی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں تھی لیکن مودی کے بعد بی جے پی اپنے بل پر تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی جو آر ایس ایس کے لیے غیر معمولی کامیابی ہے۔
سیاسی کامیابیاں
مودی کو پہلی بڑی سیاسی کامیابی 2001 میں ملی جب وہ اپنی آبائی ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ اس کے چند ماہ بعد گجرات میں مسلم مخالف فسادات ہوگئے جس نے پوری ریاست کو لپیٹ میں لے لیا۔ ان فسادات میں کم از کم ایک ہزار افراد کی جانیں گئیں۔
اس بارے میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ ان فسادات کو مودی کی خاموش تائید حاصل تھی لیکن وہ خود ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت شواہد کی عدم دستیابی کی بنا پر انہیں ان الزامات سے بری بھی کرچکی ہے۔
گجرات فسادات کی وجہ سے نریندر مودی کو نقصان ہونے کے بجائے ان کے سیاسی کریئر کو نئی قوت حاصل ہوئی۔
جیفرلوٹ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے مودی نے ہندو قومی پرستی پر زیادہ توجہ دینا شروع کی اور سیاسی مفادات کے لیے مذہبی تقسیم کا استعمال شروع کردیا۔
فسادات کی وجہ سے ریاست گجرات کا امیج بہت خراب ہوا تھا اس لیے مودی نے ناصرف بڑے سرمایہ داروں سے قریبی مراسم پیدا کیے اور ان کی حمایت حاصل کی بلکہ ریاست میں بڑے کاروباری گروپس سے فیکٹریاں تعمیر کروائیں اور معاشی تعمیر و ترقی کے ذریعے اسے کامیاب ماڈل بنا کر پیش کیا۔
جیفرلوٹ کا کہنا ہے کہ مودی رفتہ رفتہ مطلق العنان بنتے چلے گئے۔ انہوں نے پولیس اور قانونی نظام پر سارا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میڈیا کو بائی پاس کرتے ہوئے ووٹرز سے براہِ راست رابطہ قائم کیا۔
اپنے طرزِ حکمرانی کو مودی نے ’گجرات ماڈل‘ کا نام دیا اور اپنے اس امیج کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کے لیے راستہ ہموار کیا۔
جیفرلوٹ کہتے ہیں کہ مودی نے ہندو قوم پرستی کو مقبول سیاسی نظریہ بنانے کے لیے گجرات کی صورت میں ایک عملی ماڈل پیش کیا۔ وہ اب اس ماڈل کو پورے بھارت میں پھیلا چکے ہیں۔
بڑے منصوبے
گزشتہ برس جون میں نریندر مودی نے نہ صرف تیسری بار منتخب ہونے کے لیے مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا تھا۔ وہ انتخابی جلسوں میں بڑے منصوبوں کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔
ایک جلسے میں مودی کا کہنا تھا کہ وہ 2047 تک بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ غربت کا خاتمہ کر کے بھارت کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنانا چاہتے ہیں۔
اگر مودی انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو جواہر لعل نہرو کے بعد مسلسل تیسری بار اس منصب پر منتخب ہونے والے دوسرے وزیرِ اعظم ہوں گے۔
مختلف انتخابی جائزوں میں مودی کی مقبولیت 70 فی صد سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور وہ اپنی جماعت سے زیادہ مقبول ہیں۔ ان کے حامی انہیں ایک مضبوط لیڈر اور بھارت کے دشمنوں کے طاقت ور حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انہیں ایسے سرمایہ داروں کی بھی پوری مدد حاصل ہے جن کی دولت میں ان کے اقتدار کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ غریبوں کے لیے انہوں نے سستے داموں خوراک اور مکانات وغیرہ کی فراہمی کی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں اور ان کی مدد سے بڑھتی بے روزگاری کے اثرات کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغربی لیڈر اور کمپنیاں انہیں کھلے بازوؤں کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں کیوں کہ مودی نے بھارت کو چین کا متبادل بنا کر پیش کیا ہے۔
مودی نے ہندومت سے گہری وابستگی کے اظہار کے لیے اقوامِ متحدہ میں یوگا کیا، سبزی خوری کے فوائد بتائے اور وہ بھارت کی عظمت اسے دوبارہ لوٹانے کی بات کرتے ہیں۔
پی کے لہری نامی گجرات کے ایک سابق سینئر بیورکریٹ کا کہنا ہے کہ جب بات الیکشن میں کامیابی کی ہو تو مودی کبھی خطرہ مول نہیں لیتے۔ وہ جب الیکشن کے لیے میدان میں اتریں گے تو ان کی پارٹی ایک بھی سیٹ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کے عروج نے آر ایس ایس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔
سن 2019 میں ان کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی جو کہ بھارت کے انتظام واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ شہریت کا متنازع قانون منظور کیا جس میں سوائے مسلمانوں کے بھارت منتقل ہونے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
رواں برس جنوری میں مودی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کیا جو آر ایس ایس اور کروڑوں ہندوؤں کا دیرینہ خواب تھا۔
بی جے پی امتیازی سلوک اور تفریق پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنے کی تردید کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ وہ تمام بھارتی شہریوں کے یکساں مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔
رواں ماہ بی جے پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پورے بھارت میں مختلف مذاہب کے الگ الگ پرسنل لاز کے بجائے پورے ملک میں یکساں عائلی قوانین نافذ کرے گی۔ مسلمان رہنما اور دیگر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
لیکن مودی کی سیاست ایسے لوگوں کے لیے بھی کشش رکھتی ہے جو دائیں بازو کے قوم پرستانہ نظریات سے ہٹ کر ترقی اور معاشی خوشحالی کی بنا پر ان کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نظر میں مودی بھارت کی معاشی ترقی کو ایک ہندو ملک کی ترقی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
گجرات کے ایک اسکول پرنسپل ستیش اہلانی کا کہنا ہے ’’بھارت اس سے پہلے وہاں نہیں پہنچا تھا جہاں آج ہے۔ ہند ہونا ہماری شناخت ہے اس لیے ہم ایک ہند ملک چاہتے ہیں۔ ملک کی ترقی کے لیے مسلمانوں کو بھی ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ انہیں یہ تسلیم کر کے ہمارے ساتھ چلنا چاہیے۔‘‘
اس تحریر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔
فورم