بھارت کے شہر آگرہ میں دنیا کے آٹھویں عجوبے تاج محل کے حوالے سے عدالتوں میں ہندو شدت پسند جماعتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً درخواستیں دائر کی جاتی رہی ہیں۔ اب مغل حکمراں شاہ جہاں کی برسی پر ان کے مزار پر منعقد کیے جانے والے سالانہ عرس کے خلاف ایک پٹیشن آگرہ کی سول عدالت میں داخل کی گئی ہے جسے عدالت نے سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تاج محل میں ایک زمانے سے شاہ جہاں کا عرس ہو رہا ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔
یہ درخواست ایک ہندو تنظیم ’اکھل بھارت ہندو مہا سبھا‘ (اے بی ایچ ایم) کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں عرس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
درخواست میں تاج محل کے احاطے میں مفت داخلے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کے تحت آنے والی عمارت میں کوئی مذہبی تقریب غیر قانونی ہے۔
واضح رہے کہ 1653 میں تعمیر کی جانے والی اس عمارت میں عرس کا انعقاد محکمۂ آثارِ قدیمہ کی نگرانی میں کیا جاتا رہا ہے۔ رواں برس عرس چھ سے آٹھ فروری کو منعقد ہو گا جس کے دوران عمارت کے بعض حصوں کو غسل، چادر پوشی، سمیت دیگر رسمیں شامل ہوں گی۔
قانون اور عدالتی امور کی رپورٹنگ کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’بار اینڈ بینچ‘ کے مطابق یہ درخواست آگرہ کی ضلعی عدالت میں جمعے کو اِن لسٹ کی گئی اور سول جج نے اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور بھی کر لیا۔ اس درخواست پر سماعت مارچ میں ہوگی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عرس کے انعقاد کے لیے حکومت اور محکمۂ آثارِ قدیمہ سے اجازت نہیں لی گئی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شاہ جہاں عرس انعقاد کمیٹی کا کسی بھی طرح کا تعلق تاج محل سے نہیں ہے۔
اے بی ایچ ایم کے ترجمان سنجے جاٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ محکمۂ آثارِ قدیمہ نے حق اطلاع قانون (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ) کے تحت عرس کی اجازت کی اطلاع کی تردید کی ہے۔ اس لیے ہندو تنظیم نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ شاہ جہاں عرس کمیٹی کو عرس کے انعقاد سے روکا جائے۔
لیکن کمیٹی کے چیئرمین سید ابراہیم زیدی کا کہنا ہے کہ محکمۂ آثارِ قدیمہ سے سالانہ عرس کے انعقاد کی اجازت لی گئی ہے۔
اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انہوں نے اس دعوے کی تردید کی کہ تاج محل میں عرس کے لیے کوئی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے تاج محل کے تاریخی تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انگریز دور میں اور آزاد بھارت میں بھی اس کی اجازت موجود ہے۔
یاد رہے کہ مختلف عدالتوں میں درخواستیں دائر کرکے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ تاج محل ایک ہندو مندر ہے۔ اس سلسلے کی ایک درخواست آگرہ کی ایک عدالت میں زیر التوا ہے جب کہ ایک درخواست الہ آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دی تھی۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال عرس کے دوران 1450 میٹر کی چادر مقبرے پر چڑھائی گئی تھی۔ بعد ازاں صحن میں لنگر پیش کیا گیا۔
آگرہ کے مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تاج محل میں واقع شاہ جہاں کے مقبرے پر ہمیشہ عرس ہوتا آیا ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے۔
مسجد نہر والی کے خطیب محمد اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہم لوگ بچپن سے وہاں عرس کا انعقاد دیکھتے آئے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس کے خلاف کسی عدالت میں درخواست داخل کی گئی ہو۔
ان کے مطابق اس وقت ملک کا جو ماحول ہے اس میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ آگرہ کی جامع مسجد کے زینوں کے نیچے مورتیاں ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جب کہ کچھ عناصر کی جانب سے اسے بھی مندر بتایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جامع مسجد کے داخلی دروازے پر ایک عرصے سے سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب مسلمانوں کی جانب سے ایسے تنازعات پر کوئی شدید ردِ عمل ظاہر نہیں کیا جاتا۔ وہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں جس کا مشاہدہ بابری مسجد کے فیصلے کے وقت بھی کیا گیا اور وارانسی کی گیان واپی مسجد کے معاملے میں بھی کیا گیا۔
ان کا خیال ہے کہ مسلمان سمجھ گئے ہیں کہ وہ ردِ عمل کا مظاہرہ کریں گے تو ان کا ہی نقصان ہو گا۔ لہٰذا اب ان کی توجہ جذباتی ایشوز سے ہٹ گئی ہے۔ اب وہ تعلیم پر توجہ دینے لگے ہیں۔
واضح رہے کہ پہلے اس قسم کے معاملات پر بھارت میں مسلمان سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
مسلم رہنماؤں اور تنظیموں کی جانب سے بیان دے دیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر مساجد سے اپیل کی جاتی ہے کہ مسلمان صبر سے کام لیں اور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔
محمد اقبال کے خیال میں اگر تاج محل کے اندر شاہ جہاں کے عرس کے انعقاد پر پابندی لگ بھی جاتی ہے تو اس کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کا امکان نہیں ہے۔