مصر کے شہر شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس میں تاریخی معاہدے کی منظوری دی گئی ہے، جس کے مطابق وہ غریب ممالک ،جنہیں امیر ملکوں کی جانب سے کاربن کے اخراج کے باعث آلودگی سے موسمیاتی شدت کا سامنا ہے، کو معاوضہ دیا جائے گا۔
اس ضمن میں مجموعی رضامندی کا معاملہ ابھی بھی تعطل کا شکار ہے کیوں کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں کے بارے میں معاملات طے ہونا ابھی باقی ہیں۔
فنڈ کی منظوری کے فیصلے کے بعد مذاکرات کی کارروائی کو آدھے گھنٹے کے لیے روکنا پڑا تاکہ رائے دہی سے قبل وفود کے ارکان اقدامات سے متعلق متن کا مطالعہ کرسکیں۔
فیصلے کے مطابق ایک فنڈ قائم کیا جائےگا جسے مذاکرات کاروں نے' نقصان اور تباہ کاری' کا نام دیا۔
یہ ان غریب ملکوں کے لیے بڑا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے جو ایک عرصے سے نقد امداد کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، جسے زر تلافی کا اقدام بھی قرار دیا جاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور اس کی شدت کے باعث سیلاب، خشک سالی، قحط اور طوفان آتے رہے ہیں البتہ جو ممالک ان آفات کا شکار ہو رہے ہیں وہ عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شدت میں اضافےکے ذمہ دار نہیں ہوتے۔
ایک طویل مدت سے اس صورتِ حال کو'موسمیاتی انصاف' کا معاملہ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
موسياتي تبديلی سے متعلق پاکستان کی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ 30 برس سے جاری یہ جدوجہد آخر کار آج کامیابی سے ہم کنار ہوئی ۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ شدید بارش اور تباہ کن سیلاب کے باعث پاکستان کا ایک تہائی علاقہ زیرِ آب تھا۔
کانفرنس میں شریک شیری رحمان اور دیگر حکام اس صورتِ حال کے بارے میں کہتے رہے ہیں کہ جو آج پاکستان پر بیت رہی ہے وہ کل کسی دوسرے ملک کا مقدر بھی ہو سکتا ہے۔
مالدیپ کی ماحولیات کی وزیر امیناتھ شونا نے ہفتے کے روز ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا تھا کہ اس فیصلے کا تعلق ہمارے جیسے ملکوں سے ہے، جن کے لیے اب یہ ممکن ہوگا کہ اس کا حل تلاش کیا جائے، جس بات کی ہم وکالت کرتے رہے ہیں۔
ماہرین اس فیصلے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔
اتوار کی صبح منظور ہونے والے فیصلے کے بارے میں ماحولیات کے تھنک ٹینک 'ورلڈ انسٹیٹیوٹ 'کی صدر انی داس گپتا نے کہا ہے کہ نقصان اور تباہ حالی سے نمٹنے سے متعلق یہ فنڈ ان متاثرہ خاندانوں کی امداد کر سکے گا جن کے گھر تباہ ہوئے، کسان جن کی فصلیں اجڑ گئیں، جو اپنے آبائی گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے ان ملکوں کا حوصلہ بڑھے گا جو آب و ہوا کی تبدیلی کی زد میں آ سکتے ہیں۔
’کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل‘ کی عالمی حکمتِ عملی کے سربراہ ہرجیت سنگھ نے کہا ہے کہ یہ سمجھوتا مشکل میں گھرے ان ملکوں کے لوگوں کی ڈھارس باندھے گا جنہیں موسم کی آفات کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
معاہدے کی رو سے ابتدائی طور پر فنڈ کو ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ ساتھ دیگر نجی اور سرکاری اعانت سے جاری کیا جائے گا جن میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔
ترقی کی جانب تیزی سے قدم بڑھانے والے ملک جیسا کہ چین ابتدائی مرحلے میں حصہ نہیں لیں گے لیکن آئندہ برسوں میں مذاکرات ہوں گے اور انہیں اس سلسلے میں اعانت کرنی پڑے گی۔
یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے یہ ایک کلیدی مطالبہ رہا ہے کہ چین فضائی آلودگی کا ذمہ دار ہے۔ ترقی پذیر ملک کو اس ضمن میں اپنی مالی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔
اس رپورٹ میں کچھ مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔