امریکہ میں کوئی ایمرجنسی صورتِ حال درپیش ہو تو سب سے پہلے ذہن میں 911 کے تین ہندسے آتے ہیں۔ یہ امریکہ میں ’یونیورسل ایمرجنسی نمبر‘ ہے جس پر ہرسال کروڑوں کالز موصول ہوتی ہیں۔
بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ اس ایمرجنسی نمبر کا ستمبر 2001 میں امریکہ پر ہونے والے نائن الیون حملوں سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن یہ نمبر ان واقعات سے بہت پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔
اس پر پہلی کال 16 فروری 1968 کو الاباما کے سینیٹر رینکن فائٹ نےملائی تھی اور اس کے بعد یہ سسٹم تیزی سے پورے امریکہ میں پھیل گیا اور ایک اندازے کے مطابق اس نمبر پر یومیہ چھ لاکھ اور سالانہ 24 کروڑ کالز موصول ہوتی ہیں۔
نیشنل ایمرجنسی نمبر ایسوسی ایشن (ایم ای این اے) کے اعداد و شمار کے مطابق فروری 2021 تک امریکہ میں ابتدائی اور ثانوی سطح کے 5748 پبلک سیفٹی آنسرنگ پوائنٹس(پی اے سی اے پی) موجود ہیں۔ یہ وہ کال سینٹرز ہیں جو 911 سے موصول ہونے والی یہ کروڑوں ایمرجنسی کالز متعلقہ اداروں کو منتقل کرتے ہیں۔
سروس کا آغاز کیسے ہوا؟
امریکہ میں1950 کی دہائی تک ٹیلیفون عام ہوچکا تھا۔ 911 کے ایمرجنسی نمبر سے قبل کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں متعلقہ اداروں کے دس ہندسوں تک کے ٹیلی فون نمبر ڈائل کرنا پڑتے تھے۔ہر علاقے میں فائر اسٹیشن، تھانوں اور اسپتالوں وغیرہ کے نمبر مختلف اور طویل ہونے کی وجہ سے یہ ہر کسی کو یاد بھی نہیں ہوتے تھے۔
سن 1957 میں امریکہ میں آگ بجھانے والوں اہلکاروں کی نیشنل فائر چیفس ایسوسی ایشن نے آتشزدگی کے واقعات کی اطلاع فراہم کرنے کے لیے پورے ملک کے لیے ایک فون نمبر جاری کرنے کی تجویز دی تھی۔
اس تجویز کو مزید توجہ 1966 میں حاصل ہوئی جب امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس نے حادثاتی اموات سے متعلق ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 1965 کے سال میں امریکہ میں حادثاتی طور پر زخمی ہونے کے پانچ کروڑ 20 لاکھ چھوٹے بڑے واقعات ہوئے۔ اس ایک برس میں امریکہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد حادثات میں زخمی ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں حادثاتی طور پر زخمی ہونے کے واقعات میں مستقل طور پر کسی جسمانی معذوری کا شکار ہونے والے امریکی شہریوں کی تعداد چار لاکھ اورعارضی طور جسمانی معذوری کا شکار ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ بتائی گئی تھی۔
ان حادثات کی وجہ سے امریکی شہریوں کو ایک سال میں 18 ارب ڈالر کا خرچ برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس رپورٹ میں ہنگامی حالات میں جانوں کے ضیاع اور معذوری کے واقعات کو تیزی سے پھیلتی وبا قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں حادثات میں ہونے والے جانی نقصان کی روک تھام کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ طبی امداد کی فراہمی اور ایمبولینس بلانے کے لیے قومی سطح پر ایک ایمرجنسی نمبر فراہم کرنے کی بھی تجویز دی گئی تھی۔
مذکورہ رپوٹ میں یہ تجویز سامنے آںے کے بعد 1967 میں نفاذ قانون و انصاف کے ایک صدارتی کمیشن نے بھی ہنگامی حالات کے لیے ایک نمبر متعارف کرانے کی سفارش کی۔ کمیشن نے یہ بھی تجویز کیا کہ حادثات میں طبی امداد اور ہنگامی حالات پر قابو پانے والے دیگر اداروں کی مدد طلب کرنے کے لیے یکساں نمبر ہونا چاہیے۔
وفاقی اداروں نے بھی اس تجویز کی تائید کی اور صدارتی کمیشن نے یہ تجاویز مواصلات سے متعلق فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن(ایف سی سی) کو اس سے متعلق اقدامات کرنے کی ہدایت کردی۔
نومبر 1967 میں ایف سی سی نے امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کمپنی (اے ٹی اینڈ ٹی) کے ساتھ مل کر جلد از جلد یکساں ٹیلی فون نمبر کے اجرا کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ 1968 میں اے ٹی اینڈ ٹی نے اعلان کیا کہ وہ 1-1-9 کو پورے ملک کے لیے بطور ایمرجنسی کوڈ جاری کررہے ہیں۔
ایمرجنسی کے لیے 911 کا انتخاب ہی کیوں؟
ایمرجنسی کے لیے 911 کے نمبر کا انتخاب امریکہ کی مرکزی یا کسی ریاستی حکومت نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ فیصلہ اے ٹی اینڈ ٹی کا تھا۔
ہنگامی حالات کے لیے اس نمبر کے انتخاب کے کئی اسباب بتائے جاتے ہیں۔ نیشنل ایمرجنسی نمبر ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق یہ نمبر مواصلاتی اداروں اور عوام دونوں کے لیے موزوں تھا کیوں کہ یہ مختصر نمبر ڈائل کرنے اور عوام کے لیے یاد رکھنے میں آسان تھا۔
اس نمبر کے اجرا کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل یہ کسی بھی آفس کوڈ، ایریا کوڈ یا سروس کوڈ وغیرہ کے لیے جاری نہیں ہوا تھا۔ یہ نمبر پہلی مرتبہ جاری کیا جا رہا تھا۔اسی سبب سے 911 کے نمبر کو امریکہ میں ایمرجنسی کوڈ کے لیے مختص کیا گیا۔
کانگریس نے بھی اس تجویز کی تائید کی اور اس نمبر کو ایمرجنسی کوڈ بنانے اور اس کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے قانون سازی کر دی۔
اس قانون سازی کے بعد اس نمبر کو فعال کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے اور 16 فروری 1968 کو الاباما کے سینیٹر رینکن فائٹ نے اس نمبر پر پہلی کال کرکے اس سروس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔
امریکہ سے باہر بھی۔۔
ایمرجنسی کے لیے یکساں نمبرز کا تصور پہلی مرتبہ امریکہ میں سامنے نہیں آیا تھا۔ اس سے قبل 1936 میں برطانیہ میں 999 کو ایمرجنسی ٹیلی گراف اور فون کمیونیکیشن کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔
امریکہ میں 1968 میں 911 کے متعارف ہونے کے بعد تیزی سے یہ تصور مقبول ہوا اور تقریباً امریکہ کے 96 فی صد رقبے میں یہ سروس کام کررہی ہے۔
اس کے فوائد کو دیکھتے ہوئے کینیڈا نے بھی اپنے لیے ایمرجنسی کوڈ کے طور پر 911 کے نمبر ہی کا انتخاب کیا اور یکساں ایمرجنسی کوڈ کے اس تصور کو عالمی شناخت حاصل ہوئی۔
مرکزی نظام نہیں
امریکہ میں ہنگامی حالات میں مدد فراہم کرنے کے لیے 911 کی اہمیت بنیادی ہے لیکن اس نمبر سے منسلک نظام کو قومی سطح پر ایک ہی ادارے یا اتھارٹی کے تحت نہیں چلایا جاتا۔
ملک میں پانچ ہزار سے زائد پبلک سیفتی آنسرنگ پوائنٹس (پی ایس اے پی) اس نمبر پر آنے والی کالیں موصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی تین ہزار کاؤنٹیز میں مقامی سطح پر 911 کال سینٹر بنائے گئے ہیں جو مقامی سطح پر مدد کے لیے موصول ہونے والی کالوں کو متعلقہ اداروں تک پہنچاتے ہیں۔
ہر کال ایمرجنسی کال نہیں ہوتی!
والڈن یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونےو الے ایک مضمون کے مطابق پورے سال کروڑوں کال وصول کرنے والے اس نظام میں ہر کال کسی ایمرجنسی کے لیے نہیں ہوتی۔
کئی مرتبہ اس پر عجیب و غریب شکایات بھی موصول ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ لوگ گھر میں استعمال ہونے والے آلات کی خرابی، پڑوسی کے کتے کے بھونکنے اور اپنے باتھ روم کی لائن مین رکاوٹ تک کی شکایات کے لیے یہ نمبر ڈائل کر دیتے ہیں۔
بعض شہروں میں 911 پر بلا ضرورت کال کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً 2015 میں ریاست اوہائیو میں ایک 44 سالہ خاتون نے 911 پر کال کرکے یہ شکایت کی کہ اسے چائنیز کھانا پسند نہیں آیا۔ مقامی پولیس نے اس خاتون کو گرفتار کر لیا تھا۔