|
ویب ڈیسک — برطانیہ کے شمال مغربی علاقے ساؤتھ پورٹ میں تین کمسن بچیوں کی ہلاکت کے بعد ملک کے متعدد شہروں میں شروع ہونے والے پر تشدد مظاہرے ہفتے کو بھی جاری رہے جن میں متعدد پولیس اہل کار زخمی ہوئے ہیں جب کہ کئی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق سوشل میڈیا پر ساؤتھ پورٹ واقعہ سے متعلق غلط معلومات پھیلنے کی وجہ سے امیگریشن مخالف سینکڑوں مظاہرین نے کئی قصبوں اور شہروں میں احتجاج شروع کر دیا۔
غلط معلومات میں کہا گیا تھا کہ بچوں کو ڈانس کلاس میں چاقو کے حملے سے ہلاک کرنے والا مشتبہ شخص ایک بنیاد پرست تارک وطن تھا۔
گزشتہ پیر کو ساؤتھ پورٹ کے ایک مقامی ڈانس اسکول میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس کے دوران چاقو سے مسلح ایک شخص نے اچانک حملہ کر دیا تھا جس میں تین بچیاں ہلاک ہوئی تھیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سترہ سالہ مشتبہ شخص ایکزل ردا کبانا برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ تاہم اس کے باوجود امیگریشن مخالف اور مسلم مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں جو تشدد، آتش زنی اور لوٹ مار میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے چار مختلف خطوں میں واقع چار شہروں لیور پول، برسٹل، ہل اور بل فاسٹ میں مظاہرے شروع ہوئے جب کہ امیگریشن مخالف مظاہرین اور نسل پرستی کے مخالف گروہوں کے حامی افراد کے درمیان ہاتھا پائی اور بوتلیں پھینکنے کی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں۔
مظاہروں کے دوران متعدد پولیس اہل کار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ پولیس اہلکار اس وقت زخمی ہوئے جب وہ حریف مظاہرین جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، کو تصادم سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
شمال مغربی شہر میں پولیس کا کہنا ہے کہ لیور پول میں دو پولیس افسران چہرے کے فریکچر کے ساتھ اسپتال میں داخل ہوئے جب کہ ایک پولیس اہل کار کو موٹر سائیکل سے دھکیلا گیا اور اس پر حملہ کیا گیا۔
پولیس نے پورے ملک سے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے جو پر تشدد واقعات اور لوٹ مار میں ملوث تھے۔
علاوہ ازیں کئی شہروں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
منگل کو ساؤتھ پورٹ کی ایک مسجد پر کیے جانے والے حملے کے بعد پورے ملک میں مساجد کو سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ جمعے کو سندر لینڈ میں سینکڑوں امیگریشن مخالف مظاہرین نے ایک مسجد کے قریب پولیس پر پتھراؤ کیا اور ایک کار اور پولیس اسٹیشن کو مظاہرین نے آگ لگا دی۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔