بھارت کی پہلی خاتون صدر پرتیبھا پاٹل 25 جولائی 2007 سے 25 جولائی 2012 تک اپنے منصب پر فائز رہیں لیکن ان کی مدتِ صدارت کئی تنازعات کا شکار تھی۔
کانگریس کی قیادت میں چلنے والے یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کی مخلوط حکومت نے پرتیبھا پاٹل کو صدر کے لیے منتخب کیا تھا۔ ایامِ صدارت کے دوران ضرورت سے زیادہ ان کے غیر ملکی دورے اور ان دوروں میں زیادہ سے زیادہ اپنے اہلِ خانہ کے افراد کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ رقم خرچ کرنا عام تھا۔
سرکاری پیسے سے 24000 مربع میٹر پر اپنے لیے مکان کی تعمیر، سبک دوشی کے بعد دو سرکاری کاروں پر دعویٰ اور ایک نجی کار کے لیے حکومت سے ایندھن کا مطالبہ پرتیبھا پاٹل کے نمایاں تنازعات میں شامل ہیں۔
تاہم سب سے بڑا تنازع بحیثیت صدر ملنے والے 155 تحائف کو اپنے ساتھ لے جانا ثابت ہوا۔ بھارت کا قانون کہتا ہے کہ صدر، نائب صدر، وزیرِ اعظم، وزرا اور دیگر اعلیٰ اہل کاروں کو ملنے والے تحائف ان کی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ وہ وزارتِ خارجہ کے تحت منظم ہونے والے خزانے یا توشہ خانہ کی ملکیت ہوتے ہیں۔
پرتیبھا پاٹل نے کچھ تحائف مہاراشٹرا کے امراوتی میں اپنے خاندان کی جانب سے چلائے جانے والے ایک تعلیمی ادارے کو بطور قرض دے دیے تھے۔
جب اس پر تنازع پیدا ہوا تو انہیں راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر)سے تحائف واپس کرنے کی ہدایت کی گئی اور بالآخر انہوں نے 22 مئی 2013 کو تمام تحائف واپس کر دیے۔
اس واقعے نے ملک کی پہلی خاتون صدر کے تشخص کو متاثر کیا۔ حالاں کہ ان کے پیش رو صدر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نےملنے والے تحائف کے سلسلے میں ایک باوقار روایت کی بنیاد ڈالی تھی۔
سابق صدرعبدالکلام نےاپنے منصب سے سبکدوشی سے چند روز قبل یعنی 19 جولائی 2007 کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ محض دو سوٹ کیس کے ساتھ ہی راشٹرپتی بھون میں داخل ہوئے تھے اور اسی طرح ہی رخصت بھی ہوں گے۔
البتہ انہوں نے کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ اکٹھا کیا تھا۔ جو ان کا اپنا تھا اور جسے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ کتابوں کے مطالعے کے شوقین تھے اور بحیثیت صدر ملنے والے تمام تحائف انہوں نے راشٹرپتی بھون میں ہی چھوڑ دیے تھے۔
انہوں نے اپنی الوداعی تقریب میں عوام کو ایک نصیحت کی تھی کہ وہ "کسی سے کوئی تحفہ قبول نہ کریں کیوں کہ تحفے کا ہمیشہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور یہ سانپ کو چھونے اور اس کے عوض زہر پانے جیسا ہے۔"
صدر اے پی جے عبد الکلام کی یہ نصیحت اپنی جگہ لیکن عام طور پر تحفے کی واپسی کو بد اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کا یہ عام خیال ہے کہ تحائف کے تبادلے سے باہمی محبت میں اضافہ اور رشتوں میں استحکام آتا ہے لیکن بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ زمانہ بدل گیا۔ اب کسی کو تحائف پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عوض اسے بھی کچھ چاہیے۔
دورِ حاضر میں ملکوں کے درمیان سفارت کاری کی مدد سے رشتے مضبوط کیے جاتے ہیں اور سفارت کاری میں تحائف کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ اگر کوئی سربراہِ ملک اپنے میزبان ملک کی جانب سے پیش کردہ تحفہ واپس کر دے تو رشتوں میں تلخی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
لیکن بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک میزبان ملک کی جانب سے پیش کردہ ایک اہم تحفہ واپس کر دیا تھا لیکن ان کے اس عمل کا دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
وزیرِ اعظم مودی نے مئی 2015 میں منگولیا کا دورہ کیا تھا جہاں ان کے ہم منصب نے انہیں ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا بطور تحفہ پیش کیا۔ چونکہ وزارتِ ماحولیات و جنگلات نے 2005 میں یہ قانون بنا دیا تھا کہ سفارتی تحفے کے طور پر کسی جانور کا تبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے انہیں وہ گھوڑا وہیں چھوڑ کر آنا پڑا۔
قانون کے مطابق سیاسی شخصیات یا سفارت کار تحفے میں جانور قبول تو کر سکتے ہیں لیکن وہ انہیں بھارت نہیں لا سکتے۔
بھار ت میں بھی دوسرے ملکوں کی مانند سیاسی شخصیات، سفارت کاروں اور اعلیٰ اہل کاروں کو ملنے والے تحائف کے سلسلے میں قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق سرکاری دوروں میں ملنے والے تحائف توشہ خانے میں جمع کرانے ہوتے ہیں۔
توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
بھارت کے ایک سابق سفیر محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تحائف دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک سرکاری اور دوسرے نجی۔ نجی تحائف اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں لیکن سرکاری تحائف کی اطلاع دینی اور انہیں توشہ خانہ میں جمع کرانا ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'خزانہ گھر' یا'خزانہ خانہ' کے ہیں۔
عہد مغلیہ میں توشہ خانہ اس جگہ کو کہتے تھے جہاں شہزادے کسی کی جانب سے پیش کیے جانے والے تحائف اور عزت وقار کی علامتیں محفوظ رکھتے تھے۔لیکن برطانوی دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام پر تحائف قبول کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ خواہ وہ تحفہ ہتھیاروں کی شکل میں ہو یا زیورات کی شکل میں۔
ماضی میں بھارت کے یا مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کی جانب سے بطور اعزاز خلعت (قیمتی لباس) تفویض کرنے کا چلن تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں خلعت کو بھی توشہ خانہ میں جمع کرانا ہوتا تھا۔ بعض کو مناسب مواقع پر انہیں دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کو بطور تحفہ پیش کیا جاتا تھا۔
آزاد بھارت میں بھی توشہ خانہ کی روایت موجود ہے۔ حکومت نے 1978 میں ایک گزٹ نوٹی فکیشن جاری کرکے یہ قانون بنا دیا تھاکہ سرکاری دورے میں ملنے والے تحائف کو 30 روز کے اندر توشہ خانے میں جمع کرانا ہوگا۔
البتہ اگر کسی تحفے کی قیمت پانچ ہزار یا اس سے کم ہے تو وصول کنندہ اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ تحفے کی قیمت کا تعین مقررہ اہل افراد کرتے ہیں۔ زیادہ قیمت والے تحائف کو قیمتاً خریدا جا سکتا ہے جب کہ باقی کی نیلامی کی جاتی ہے۔
بعد ازاں بھارتی حکومت نے توشہ خانہ قانون میں ترمیم کر دی تھی۔ جس کے مطابق انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس، انڈین پولیس سروس اور انڈین فاریسٹ سروس کے اہل کار اگر غیر ملکی دورے کے وقت سرکاری وفد میں شامل ہیں اور انہیں غیر ملکی شخصیات سے تحفہ ملتا ہے تو وہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی قیمت 25000 روپے سے زائد ہے تو اس کی اطلاع دینا لازم ہے۔
سابق سفیر محمد افضل کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی اطلاع توشہ خانہ کو نہیں دیتے اور انہیں خاموشی سے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق کئی سال قبل حکومت کے ایک وزیر کو خلیجی ملک کے ہم منصب کی جانب سے ایک گولڈ پلیٹڈ گھڑی تحفے میں ملی تھی جسے انہوں نے توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا۔ جب اس بارے میں تفتیش ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مصروفیت کی وجہ سے وہ تحفے کا بتانا بھول گئے تھے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ 2013 کے بعد سے توشہ خانہ کی فہرست اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرتی آئی ہے۔ اس میں تحفے کا نام، وصول کنندہ کا نام اور اس کی قیمت درج ہوتی ہے۔ وزارت ہر تین ماہ بعد اسے اپ ڈیٹ کرتی ہے۔
اس فہرست میں میمنٹو، کتابیں، سلور کیس، ٹی سیٹ، سونے کے زیورات اور شراب کی بوتلیں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ فہرست کافی دلچسپ ہے۔ جس کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک بار 26000 روپے کی مالیت کے کف لنکس ملے تھے۔
نریندر مودی کو ملنے والے تحائف کی نیلامی
گزشتہ کئی برس سے وزیر اعظم نریند رمودی کو ملنے والے تحائف کی سالانہ نیلامی ہوتی ہےجس سے حاصل رقم کو فلاحی کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں نیلامی کے دوارن ایک بیڈ منٹن ریکٹ 51 لاکھ روپے میں نیلام ہوا تھا جس پر تھومس کپ کے فاتح سری ناتھ کے دستخط تھے۔ اسی طرح وزیرِ اعظم مودی کو ملنے والی ایک ٹی شرٹ 50 لاکھ 25 ہزار روپے میں نیلام ہوئی تھی جس پر 2020 میں پیراولمپکس کے گولڈ میڈلسٹ منیش نروال کا آٹوگراف تھا۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 2011 میں غیر ملکی دوروں میں دو لاکھ 90 ہزار روپے کے تحائف وصول کیے تھے۔
اخبار 'انڈین ایکسپریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ٹی سیٹ کا بہت شوق تھا اور تحفے میں ملنے والے پانچ ٹی سیٹ انہوں نے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔
من موہن سنگھ کو ایک غیر ملکی دورے میں نو لاکھ روپے کی ایک رولیکس گھڑی بطور تحفہ ملی تھی۔ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے بھی انہیں سونے کا ایک نیکلیس پیش کیا تھاجس کی مالیت سات لاکھ 40 ہزار روپے تھی۔ سابق وزیرِ اعظم نے یہ دونوں تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیےتھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ سشما سوراج کو چاندی، ہیرے اور زمرد کے زیورات کا ایک سیٹ ملا تھا جس کی قیمت 70 لاکھ 60 ہزار روپے تھی۔ 2018 میں سیکریٹری خارجہ وجے گوکھے کو ایک باکس ملا تھاجس میں کڑے، پین، گھڑیاں اور دیگر اشیا تھیں۔ اس کی مالیت چار کروڑ روپے تھی۔
وزارتِ خارجہ کے ایک ڈپٹی سیکریٹری مانہارسن یادو کو ڈائمنڈ واچ ملی تھی۔ وزیر اعظم مودی کے سیکریٹری سنجیو سنگلا کو سوا کروڑ کی گھڑی ملی تھی۔ جب کہ سری لنکا میں بھارت کے ہائی کمشنر گوپال باگلے کو 50 لاکھ کی گھڑی اور کف لنکس ملے تھے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ تحائف کا تبادلہ سفارت کاری کا حصہ ہےجس سے دو ملکوں کی تہذیب و ثقافت کا علم ہوتا ہے اور اس سے رشتوں کی اہمیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ اگر دو رہنماؤں میں ذاتی تعلق ہے تو تحفہ بھی ذاتی اثر ڈالتا ہے۔
محمد افضل کہتے ہیں کے پہلے باہمی رشتوں کی استواری میں تحائف کا کافی عمل دخل ہوتا تھا لیکن اب اقتصادی بنیاد پر رشتے استوار ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود دو ملکوں کے سربراہان یا دیگر شخصیات کے مابین تحائف کے تبادلے کی بڑی اہمیت ہے۔
بھارت تحفے میں کیا دیتا ہے؟
بھارتی اہل کاروں کی جانب سے بھی غیر ملکی شخصیات کو تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔ قانون کے مطابق ان تحائف کا بجٹ متعین ہے۔ مقررہ لاگت سے زیادہ قیمت کا تحفہ نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ قیمت کیا اور کتنی ہے؟ وزارت خارجہ ا س کی وضاحت نہیں کرتی۔
وزیر اعظم نریندر مودی عام طور پر غیر ملکی شخصیات کو جو تحائف پیش کرتے ہیں ان میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب 'گیتا' بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ مورتیاں اور مجسمے بھی تحفتاً پیش کرتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کو کتابیں اور خاتون اول مشیل اوباما کو پشمینہ شال بطور تحفہ دی تھی۔