پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے مزید تین مبینہ عسکریت پسند گروپس نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ماہرین کے مطابق حالیہ عرصے میں تنظیم نے اپنی عسکری قوت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔
مبینہ عسکریت پسندوں کے جن گروپس نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ہے، ان میں بنوں کی تحصیل ڈومیل کے کمانڈر محمد عمر ن بھی شامیل ہین، جنھہوں نے 16 مارچ کو تنظیم میں ضم ہونے کا اعلان کیا۔
اسی طرح شمالی وزیرستان کے حاجی آفتاب داوڑ نے 21 مارچ اور بنوں کی ہی تحصیل ڈومیل کے مولانا قطب الدین نے 23 مارچ کو ٹی ٹی پی میں ضم ہونے کا اعلان کیا۔
ان تمام دھڑوں نے ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اب اپنا دائرہ کار مزید وسیع کر رہی ہے اور اسے مزید افرادی قوت بھی مل رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق حالیہ عرصے میں پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ عسکریت پسند گروپ نے خود کو منظم کیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے حکومتی ترجیحات واضح نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات خیبرپختونخوا میں ہو رہے ہیں، لیکن اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پر صرف اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے جب تمام حکومتی ادارے اور سیاسی رہنما مل بیٹھ کر متفقہ حکمتِ عملی طے کریں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی زیادہ توجہ خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تنظیم کے منظم ہونے سے اس کی پنجاب اور بلوچستان سے ملحقہ اضلاع میں کارروائیاں بڑھ سکتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو خطرناک قرار دیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں
فروری 2023 کے دوران ٹی ٹی پی نے ملک بھر میں تشدد اور دہشت گردی کی 29 کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
ان 29 میں سے 21 کارروائیاں صرف خیبرپختونخوا کے جنوبی علاقوں میں کی گئیں جن میں زیادہ تر کارروائیاں پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور جنوبی وزیرستان میں کی گئیں۔
خیبرپختونخوا کے علاوہ ٹی ٹی پی نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تین مختلف مقامات پر دہشت گردی کے چار اور کراچی میں ایک کارروائی کی ذمے داری قبول کرنے کے دعوے کیے تھے۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے 12 مارچ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی دھمکی دی تھی۔
وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور خیبرپختونخوا کے گورنر حاجی غلام نے اس بنیاد پر صوبے میں انتخابات کے لیے حالات کوناسازگار قرار دیا تھا۔