ہٹلر کی حکومت کے خاتمے کو پون صدی سےبھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود نازی پارٹی کے انداز میں سیلوٹ گاہے بہ گاہے دنیا میں مختلف تنازعات کا باعث بنتا رہا ہے۔ آج کل پاکستان میں بھی یہ سیلوٹ زیرِ بحث ہے۔
منگل کو پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ میں شرکت اور حکومت مخالف تحریک میں ثابت قدم رہنے کے لیے اپنے کارکنان سے پشاور کے ایک جلسے میں حلف لیا تھا۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین ان کے حلف لینے کے انداز کا موازنہ ہٹلر کے نازی سیلوٹ سے کر رہے ہیں۔
دنیا کے کئی ملکوں میں حلف لینے کے لیے دائیں ہاتھ کو ہوا میں اٹھا کر ہتھیلی کو سامنے رکھنے کا انداز استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ماضی میں جرمنی کی نازی پارٹی میں اپنے لیڈر اور پارٹی سے وفاداری کے حلف کے لیے بھی اس سے ملتا جلتا انداز رائج تھا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے تحریکِ انصاف کے قائد پر تنقید کی جارہی ہے۔
عمران خان کے ناقدین اور سیاسی مخالف ان کے اور ان کے حامیوں کے طرزِ عمل کا موازنہ بھی انتہائی دائیں بازو کے فاشسٹ نظریات سے کرتے آئے ہیں جب کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد سابق وزیر اعظم موجودہ حکومت پر بھی اسی طرز کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
نازی سیلوٹ کی تاریخ
جرمنی میں ہولوکاسٹ کی خونی تاریخ اور یہودیوں کے قتلِ عام کی وجہ سے ہٹلر کے نسل پرستانہ خیالات اور ان کے سیاسی نظریات سے جڑی علامتیں دنیا بھر میں نفرت کی علامت تصور ہوتی ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر میں ہٹلر کی پارٹی کے لیے مخصوص سیلوٹ کو نہ صرف نسل پرستی کی علامت قرار دیا جاتا ہے بلکہ کئی ممالک میں عوامی مقامات پر اس انداز میں سیلوٹ کرنے کو غیر قانونی بھی قرارد دیا گیا ہے۔
اسی جرمنی میں جہاں نازی سیلوٹ لازمی تھا اور اس کی خلاف ورزی پر سزائی دی جاتی تھیں، دوسری عالمی جنگ میں شکست اور ہٹلر کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں یہ سیلوٹ کرنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔اسی طرح آسٹریا، سلواکیہ، چیک ری پبلک، سوئٹزرلینڈ اور سوئیڈن میں بھی نازی سیلوٹ کو نفرت انگیزی پر مبنی جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن کس طرح ایک دور میں اس انداز میں سیلوٹ کرنا جرمنی میں رائج ہوا؟ اس تاریخ کو سمجھنے کے لیے پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ کے حالات اور ان میں ہٹلر کی مقبولیت کے اسباب جاننا ضروری ہے۔
نازی پارٹی، ایک چھوٹے گروپ سے جرمنی کی حکمرانی تک
پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ کے کئی ممالک میں قوم پرستی یا نیشنلزم کے نظریے کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ خاص طور پر جرمنی اور اٹلی میں اس تصور کی شدت پسندانہ صورتیں ہٹلر اور مسولینی جیسے آمروں نے رائج کیں۔ تاہم ان ممالک میں ان نظریات کی مقبولیت کے اسباب پہلی عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے جڑے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد 1929 اور 1930 کے درمیان جب جرمنی کو معاشی بحران کا سامان تھا تو اس وقت نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی ایک چھوٹی پارٹی تھی جسے عرفِ عام میں نازی پارٹی بھی کہا جاتا تھا۔ یہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل قوم پرست سیاسی جماعت تھی۔ 1930 سے 1933 کے درمیان معاشی بحران اور دوسری عالمی جنگ کی بعد شکست خوردگی کے حالات کی وجہ سے جرمنی میں صورتِ حال گھمبیر ہو چکی تھی۔ معاشی بد حالی کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار تھے۔
ہولوکاسٹ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے جرمنی کے ساتھ روا رکھے جانے والے توہین آمیز سلوک کے باعث جرمن قوم سمجھنے لگی تھی کہ پارلیمانی نظامِ حکومت کمزور ہے اور معاشی بحران سے نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ان حالات نے ایڈولف ہٹلر کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔ 1932 میں ہونے والے انتخابات میں ان کی نازی پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی اور اس نے پارلیمانی نظامِ حکومت ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
ایک سال تک جاری رہنے والی کشمکش کے بعد بالآخر جنوری 1933 میں ہٹلر جرمنی کے چانسلر بن گئے اور اس کے بعد کی جانے والی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ بالآخر مطلق العنان حکمران بننے میں کامیاب ہو گَئے۔
سیلوٹ کا آغاز
ہٹلر کے جرمنی کا چانسلر بننے سے قبل ہی نازی پارٹی کے اندر ہٹلر کو ایک خاص انداز میں سیلوٹ کرنا لازمی کردیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’ہیل ہٹلر‘ کہنا بھی ضروری تھا۔ ’ہیل‘ سلامت رہو یا محفوظ رہو کے ہم معنی دعائیہ کلمہ ہے۔تاہم اس انداز اور ’ہیل‘ کا نعرہ پہلے بھی جرمنی میں مستعمل تھا۔
ہٹلر کی پیدائش آسٹریا میں ہوئی تھی اور ان کی زندگی کا ابتدائی حصہ بھی وہیں گزرا تھا۔ اس دور میں آسٹریا میں ’پین جرمن پارٹی‘ کو مقبولیت حاصل ہورہی تھی۔ یہ ایک نسل پرست تحریک تھی اور اسے ہٹلر سے قبل سب سے بڑی یہود مخالف یا اینٹی سیمیٹک تحریک بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس پارٹی میں ’ہیل‘ کا نعرہ لگایا جاتا تھا۔
جرمن مصنف تلمین الرت اپنی کتاب ’دی ہٹلر سیلوٹ: آن دی میننگ آف جیسچر‘ میں لکھتے ہیں کہ ہٹلر اس پارٹی کے نظریات سے بہت متاثر تھے اور وہیں سے انہوں نے ’ہیل ہٹلر‘ کا نعرہ اخذ کیا۔ ہاتھ کو 45 ڈگری کے زاویے سے سیدھا کرکے سیلوٹ کرنے کا انداز نازی پارٹی نے 1923 میں اختیار کرلیا تھا۔
البتہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلامی دینے کا یہ طریقہ ایڈولف ہٹلر یا اطالوی ڈکٹیٹر بینیتو مسولینی کی ایجاد نہیں اور نہ ہی یہ یورپ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والے حالات تک محدود تھا۔
دنیا بھر میں ملاقات اور الوداع کے وقت سلام دعا کے طور طریقوں پر 2009 میں شائع ہونے والی کتاب ’ٹیلز آف ہائی اینڈ بائی: گریٹنگز اینڈ پارٹنگ ریچوئلز اراؤنڈ دی ورلڈ‘ کے مطابق بازو کو 45 ڈگری کے زاویے پر ہتھیلی نیچے کی جانب رکھ کر استقبال کرنے یا سلام کرنے کی روایت کا آغاز رومی سطلنت سے ہوتا ہے۔
بعض مؤرخین اس سیلوٹ کے رومی سلطنت سے آغاز کو محض دعویٰ قرار دیتے ہیں تاہم بیسویں صدی کے اوائل میں رومی دور کی مصوری میں یہ انداز نظر آتا ہے۔ ہٹلر نے بھی اپنی ایک تحریر میں اسے رومی دور ہی سے جوڑا ہے۔
ہتھیلی کو زمین کی جانب کرکے سلام کرنے کے اس انداز کا ایک سبب اور بھی بتایا جاتا ہے کہ اس طرح سپاہی یا سلام کرنے والا اپنے غیر مسلح ہونے کا بھی اظہار کرتا تھا۔
سیلوٹ نہ کرنے پر سزا
سن 1926 میں نازی پارٹی نے سیلوٹ کا یہ طریقہ لازمی قرار دے دیا تھا تاہم ہٹلر کے جرمنی کا چانسلر بننے کے بعد جولائی 1933 میں تمام وزارتوں کو جاری کیے گئے حکم نامے میں تمام سرکاری کارروائیوں اور مراسلت میں ’ہیل ہٹلر‘ کو آداب اور سلام کے طور پر استعمال کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔
اس حکم نامے کے بعد ہیل ہٹلر کے ساتھ نازی سیلوٹ کو لازمی قرار دینے کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ نجی خط و کتابت میں ہیل ہٹلر کو بطور آداب لکھنا لازمی کیا گیا۔ اس کے بعد سرکاری دفاتر اور نازی پرچم کے سامنے بھی اس انداز میں سیلوٹ کرنا اور 'ہیل ہٹلر' پکارنا لازمی کردیا گیا۔
جرمن مصنف تلمین الرت لکھتے ہیں کہ عام حالات میں جرمنی کے روایتی خیر مقدمی یا الوداعی کلمات نہ کہنے پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے ملاقات اور رخصت کے وقت اپنی سہولت سے روایتی انداز میں دعا سلام کرلیا کرتے تھے۔ لیکن جب ہٹلر سیلوٹ لازمی قرار دیا گیا تو یہ قانونی مسئلہ بن گیا۔
اس سیلوٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی تھی۔ مقدمات چلائے جاتے تھے جس کے بعد جرمانے اور قید کی سزائیں بھی ہوتی تھیں۔
تلمین الرت اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست اور معاہدۂ ورسائے میں شامل توہین آمیز شقوں کے بعد جرمن قوم کی خود اعتمادی اور اس کا حوصلہ بحال کرنے کی ضرورت تھی۔اسی لیے جب ہٹلر ایک تفاخر اور جذباتیت پر مبنی قوم پرستی کا نعرہ لے کر اٹھے تو شکست خوردہ جرمنوں کے مختلف الخیال گروہ ان کے گرد جمع ہونے لگے۔
ان میں قوم پرست، اشتراکیت پسند یا سوشلسٹ عناصر بھی شامل تھے۔ ہٹلر نے قوم پرستی اور اشتراکیت پر مبنی جس سیاسی فکر کی بنیاد رکھی اسے بعد میں نازی ازم کہا جانے لگا اور آج یہ فکر ان کے نام کا مترادف تصور ہوتی ہے۔
تلمین الرت کا کہنا ہے کہ جرمن ہٹلر کی شعلہ بیانی اور قومی تفاخر کے بیانیے سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ’تھرڈ ریخ‘ کہلانے والی ان کی حکومت اب جرمن کی عظمتِ رفتہ کو واپس لانے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس لیے وہ خود سپردگی اور اپنی وفادری کے اظہار کے لیے سیلوٹ کو اختیار کرچکے تھے۔
تلمین الرت کے مطابق سرکاری سطح پر رائج ہونے کے بعد ہٹلر یا نازی سیلوٹ جرمنی میں بہت تیزی سے رواج پا گیا۔ وہ 1935 میں پیش آنے والے ایک واقعے کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جب ایک پانچ برس کا بچہ میدان میں ایک کھلاڑی کو یہ سیلوٹ نہ کرنے پر ٹوک دیتا ہے۔
اس دور کی تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پانچ برس کی عمر ہی میں بچوں کو ہیل ہٹلر کہتے ہوئے نازی سیلوٹ کرنے کی تربیت دینا شروع کردی جاتی تھی۔
فاشسٹ سیلوٹ
اسی دور میں اٹلی میں بھی فاشزم کو عروج ملا اور 1920 کی دہائی سے لے کر 1945 تک اٹلی پر فاشسٹ حکومت رہی۔ اس کے سربراہ بنیتو مسولینی تھے۔
مسولینی نے بھی ہٹلر کی طرح اپنی شعلہ بیانی اور قومی تفاخر کے بیانیے سے مقبولیت حاصل کی تھی۔ ہٹلر کے جرمنی کی طرح مسولینی کے اٹلی میں بھی نازی سیلوٹ کی طرح فاشسٹ سیلوٹ رائج کیا گیا۔ اٹلی میں رائج کیا گیا فاشسٹ سیلوٹ جرمنی سے کچھ مختلف تھا اور اس میں ہاتھ کو کہنی کے بعد قدرے سیدھا رکھا جاتا تھا۔
مسولینی بھی اپنے اس سیلوٹ کے انداز کو رومی سلطنت کی تاریخ سے جوڑتے تھے۔ اٹلی میں فاشسٹ خود کو بحیرۂ روم میں قائم ہونے والی ماضی کی رومی سلطنت کے حقیقی وارث تصور کرتے تھے اور اپنے اس سیلوٹ کو اسی ورثے کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک علامت قرار دیتے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور اٹلی سے ہٹلر اور مسولینی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ان کے رائج کردہ علامتوں کو آج نفرت انگیزی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ وہی انداز جو کبھی لازم تھا آج دنیا کےکئی ممالک میں اس پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔ تاہم آج بھی دائیں بازو کے انتہا پسند قوم پرستوں اور نسل پرست گروہ اس علامت کو استعمال کرتے ہیں۔