آسٹریا کے ولی عہد آرچ ڈیوک فرانز فریڈیننڈ اپنی اہلیہ کے ساتھ 28 جون 1914 کو بوسینیا ہرزیگوینا میں شاہی فوج کا معائنہ کر رہے تھے۔
یہ وہ زمانہ ہے جب سربیا آزاد ریاست بن چکی تھی اور آسٹریا کے کنٹرول میں موجود سرب علاقوں کے قوم پرست سربیا میں شمولیت کی تحریک چلا رہے تھے۔ اس دوران سرب قوم پرستوں کی کارروائیوں میں بھی تیزی آ گئی تھی۔ اسی وجہ سے سرایوو کے علاقے میں ولی عہد آرچ ڈیوک کی آمد کے موقعے پر بہت سے خطرات منڈلا رہے تھے۔
خطرات کے باوجود آسٹریا (آسٹرو ہنگریئن سلطنت) کے ولی عہد آرچ ڈیوک فرانز فریڈیننڈ بوسنیا ہرزیگوینا پہنچے تھے اور بالآخر وہ انہونی ہو گئی جس کا خطرہ تھا۔
آرچ ڈیوک جب فوجی دستوں کا معائنہ کر رہے تھے تو اسی دوران ایک بوسنیائی سرب قوم پرست گیوریلو پرنسپ نے ولی عہد اور ان کی اہلیہ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
یہ قتل ایک چنگاری ثابت ہوا جس نے بیسویں صدی میں ایک عالمی جنگ کا الاؤ بھڑکا دیا۔ 80 لاکھ سے زائد فوجی اور 66 لاکھ عام شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔
جولائی 1914 میں شروع ہونے والی پہلی جنگِ عظیم تقریباً چار سال تک جاری رہی اور گیارہ نومبر 1918 کو اختتام پر پہنچی۔ یہ انسانی تاریخ کی ہلاکت خیز جنگوں میں سے ایک تھی۔
اسپینسر سی ٹکر کے مرتب کردہ ’یورپین پاورز ان دی فرسٹ ورلڈ وار: این انسائیکلو پیڈیا‘ کے مطابق اس جنگ میں شامل ہونے والے 60 فی صد فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
امریکہ میں اس جنگ کے خاتمے کے دن کو 'ویٹرنز ڈے' کہا جاتا ہے۔ اس دن پہلی عالمی جنگ اور 1945 میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے امریکہ کے فوجیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ امریکہ ان دونوں ہی جنگوں کے آغاز سے ان میں فریق نہیں تھا بلکہ بدلتے حالات کی وجہ سے ان میں شامل ہوا۔
پہلی عالمی جنگ میں امریکہ اتحادی قوتوں کے ساتھ یورپ میں کیوں لڑا؟ اس کا پسِ منظر سمجھنے کے لیے آرچ ڈیوک کے قتل کے وقت یورپ میں پیدا شدہ حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔
یورپی قوتوں میں طاقت کی کشمکش
پہلی عالمی جنگ جسے لڑنے والی یورپی قوتوں نے ’جنگِ عظیم‘ کا نام دیا تھا، بنیادی طور پر یورپ کی بڑی قوتوں میں جاری طاقت کی کشمکش کا نتیجہ تھی۔ طاقت کی اس رسہ کشی میں دو بڑے واضح گروہ بن چکے تھے۔
ایک گروہ 'ٹرپل ایٹنٹ' کہلاتا تھا جس میں سلطنتِ برطانیہ، روس اور فرانس شامل تھے جب کہ جرمنی، آسٹرو ہنگریئن سلطنت اور اٹلی کو 'ٹرپل الائنس' کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں ٹرپل ایٹنٹ اتحادی افواج اور ٹرپل الائنس محوری قوتوں کا گروہ کہلائے۔
یورپ کی ان سلطنتوں میں سب سے طاقت ور برطانیہ، روس اور جرمنی تھے جو دنیا میں نو آبادیات کو وسعت دینے اور اپنی قوت بڑھانے میں مصروف تھے۔
مؤرخین کے مطابق انیسویں صدی کے اختتام تک یہ سلطنتیں مستحکم ہو چکی تھیں جس کے بعد انہوں نے یورپ میں اپنا اپنا رسوخ بڑھانے کے لیے نئے اتحادی بھی بنانا شروع کر دیے تھے اور یہ سلطنتیں پیش قدمی کے لیے کسی موقعے کی تاک میں تھیں۔
جنگ کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟
ان قوتوں کے مابین طاقت کی اسی کشمکش کی وجہ سے آرچ ڈیوک کے قتل سے شروع ہونے والی لڑائی ایک عالمگیر خوں ریز جنگ کی شکل اختیار کرگئی۔ اس قتل کے بعد آسٹریا نے سربیا کی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیا اور اس کے خلاف محاذِ جنگ کھول دیا۔
پہلی عالمی جنگ کی تاریخ مرتب کرنے والے برطانوی مؤرخ مائیکل ہوورڈ نے اپنی تصنیف 'دی فرسٹ ورلڈ وار' میں لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں یورپ میں قوم پرستی کی تحریکیں عروج پر تھیں۔
ان کے مطابق سربیا کی آزادی کے بعد یورپ میں بسنے والی سلاوی نسل سے تعلق رکھنے والوں میں بھی سلاوک قومیت پرستی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ سربیا کی آزادی کی صورت میں سلاوک قوم پرستوں کی طاقت پہلے ہی دو چند ہو چکی تھی۔ اس لیے آرچ ڈیوک کے قتل کے بعد سلاوک قوم پرستی کے خطرے سے نمٹنے کا ایک جواز آسٹریا کے ہاتھ آگیا تھا۔
سربیا کو چوں کہ روس کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے آسٹریا سربیا کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے قبل جرمنی کے کیسر ولہیلم دوم سے روس کی مداخلت کی صورت میں مکمل حمایت کی یقین دہانی چاہتا تھا۔
یہ یقین دہانی حاصل ہونے کے بعد 28 جولائی 1914 کو آسٹریا ہنگری نے سربیا کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ 29 جولائی کو جب آسٹریا نے سربیا کے دارالحکومت پر بمباری شروع کی تو سربیا کے اتحادی روس کی فوجوں نے مدد کے لیے پیش قدمی شروع کر دی۔ روس کے جنگ میں شامل ہونے کے ساتھ اس کا اتحادی فرانس بھی جنگ میں کود پڑا۔
جرمنی اور فرانس یورپ میں پہلے ہی دو روایتی حریف بن چکے تھے اور اسی وجہ سے فرانس نے روس کے ساتھ اتحاد بنایا تھا۔ اس لیے فرانس کے میدان میں آتے ہی جرمنی بھی اس جنگ کا فریق بن گیا۔ تین اگست 1914 کو فرانس اور جرمنی کے درمیان بھی جنگ کا آغاز ہوا۔
’ایک کاغذ کے ٹکڑے پر جنگ‘
برطانیہ کے نیشنل آرکائیو کے مطابق اس وقت اپنی وسیع و عریض سلطنت کو سنبھالنا برطانیہ کی پہلی ترجیح تھی اور وہ علاقائی تنازعات سے اپنا دامن بچا رہا تھا۔ اسی لیے اس دور کو برطانیہ کی ’تنہائی‘ (اسپلینڈڈ آئسولیشن) کا دور بھی کہا جاتا ہے۔
برطانیہ کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے جرمنی کو بھی یہی توقع تھی کہ برطانیہ ٹرپل ایٹننٹ میں شامل ہونے کے باوجود جنگ سے لاتعلق رہے گا۔ البتہ جب جرمنی نے برطانیہ سے فرانس کو نشانہ بنانے کے لیے بیلجیئم سے گزرنے میں مدد چاہی تو برطانیہ نے صاف انکار کردیا۔
بیلجیئم کو یورپی قوتوں نے 1839 میں ہونے والے معاہدہٴ لندن کے تحت ایک آزاد ملک تسلیم کیا تھا اور اس کے دفاع کی ذمے داری بھی لی تھی۔ جرمنی کا مطالبہ تھا کہ فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے بیلجیئم سے اسے راستہ فراہم کر دیا جائے اور اس کے لیے برطانیہ معاہدہٴ لندن کو نظر انداز کر دے۔
برطانیہ کے نیشنل آرکائیو کے مطابق برطانیہ کو اس خطرے کا احساس تھا کہ بیلجیئم کی بندرگاہیں اس کی بندرگاہوں سے نزدیک ہیں۔ جرمنی اس وقت ایک طاقت ور بحری قوت کھڑی کر چکا تھا۔
اس لیے بیلجیئم میں جرمنی کی موجودگی خود برطانیہ کے لیے بھی خطرے کا باعث ہو سکتی تھی۔ اس لیے برطانیہ نے جرمن فوجوں کو بیلجیئم سے گزرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔
چار اگست 1914 کو جب جرمنی نے فرانس پر بیلجیئم کے راستے حملے کا آغاز کیا تو اس کے چند ہی گھنٹوں بعد سلطنتِ برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔
اس موقعے پر جرمنی کے حکمران کیسر ولہیلم نے کہا تھا کہ برطانوی کتنے احمق ہیں کہ ایک ’کاغذ کے ٹکڑے‘ کے پیچھے جنگ میں کود پڑے ہیں۔
شلیفن منصوبہ
تاریخ دان مائیکل ہوورڈ کے مطابق جب جنگ کا آغاز ہوا تو اس میں شامل یورپی ممالک میں رہنے والوں کا خیال تھا کہ لڑائی ان کے ممالک کی کامیابی پر ختم ہوگی۔ یہ چوں کہ یورپ میں قوم پرستی کے عروج کا دور تھا اس لیے جنگ شروع ہونے پر ایک طرح کی خوشی منائی گئی۔
مؤرخین کے مطابق جرمنی اس جنگ کے لیے سب سے زیادہ تیار تھا۔ جرمنی کی فوجی قیادت ’شلیفن منصوبہ‘ بنا چکی تھی جس میں بیلجیئم کے راستے فرانس کو فتح کرنے کی حکمتِ عملی بنائی گئی تھی۔
جنگ شروع ہونے کے بعد روس کی توجہ آسٹریا پر مرکوز تھی جب کہ جرمنی کا ہدف فرانس تھا۔
بیلجیئم پر حملے کے بعد جرمنی کی پیش قدمی جاری تھی اور شلیفن منصوبہ تکمیل کے قریب تھا۔ البتہ فرانس کی فوج پیرس کے قریب مارن کی خون ریز جنگ میں جرمنی کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب ہوئی۔
سال 1914 کے اختتام تک جنگ میں 10 لاکھ فوجی مارے جا چکے تھے لیکن اتحادی یا محوری قوتوں میں سے کسی کو برتری حاصل نہیں ہوئی تھی۔
اپنی برتری کے لیے فریقین نے زہریلی گیس کا استعمال کیا۔ اس جنگ میں پہلی مرتبہ میدان میں ٹینک لائے گئے اور آخر میں انسانی تاریخ کی ہولناک ترین مورچہ بند لڑائیاں بھی ہوئیں اور جنگ کا دائرہ پھیل رہا تھا۔
نومبر 1914 میں ترکی میں قائم سلطنت عثمانیہ بھی جرمنی کے اتحادی کے طور پر اس جنگ میں شریک ہو گئی تھی جس کے بعد پہلی عالمی جنگ کا دائرہ مشرقِ وسطیٰ تک پھیل گیا۔
مغرب میں فرانس اور بیلجیئم اس کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ ترکی کے اس جنگ میں شامل ہونے کے بعد 1916 کی ابتدا میں اتحادی افواج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
آگے چل کر جرمنی اور برطانیہ میں مغربی محاذ پر گھمسان کی لڑائی ہوئی البتہ کوئی فریق فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔
مشرقی محاذ پر جرمنی کو برتری حاصل تھی اور 1917 میں بالشویک انقلاب آنے کے بعد روسی فوج تتر بتر ہو رہی تھی۔
روس میں انقلاب آنے کے بعد نئی حکومت نے جرمنی سے مذاکرات کا آغاز کر دیا تھا۔
امریکہ کی آمد
امریکہ کے صدر وڈرو ولسن نے 1914 میں پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لائبریری آف کانگریس کے مطابق غیر جانب دار رہنے کے فیصلے پر امریکہ میں تند و تیز بحث بھی ہوئی۔
جنگ کے دوران اٹلانٹک میں آبدوزوں کے حملے تیز ہو گئے تھے اور جرمنی برطانیہ کی بحریہ کو بھاری نقصان پہنچا رہا تھا۔
پانچ مئی 1915 کو جرمن بحریہ کی آبدوز نے برطانیہ کے ایک مسافر بردار بحری جہاز ’لوسیتانیا‘ کو وارننگ دیے بغیر نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 120 امریکی شہری ہلاک ہوئے جس پر امریکہ میں شدید ردِ عمل سامنے آیا۔
امریکہ اور میکسیکو کے تعلقات میں کشیدگی پہلے سے چلی آ رہی تھی جب کہ جرمنی لاطینی امریکہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میکسیکو کو اہم تصور کرتا تھا۔
جرمنی نے امریکہ اور میکسیکو کے تعلقات میں بھی دخل اندازی کی کوشش کی۔ اس کی وجہ سے 6 اپریل 1917 کو امریکہ نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور اتحادیوں کے کیمپ میں شامل ہو گیا۔
امریکہ نے جنگ میں شریک ہونے کے بعد اتحادیوں کی مدد کے لیے 10 لاکھ فوجی یورپ بھجوائے۔
امریکہ کی جنگ میں شمولیت سے مغربی محاذ پر اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ جنگ میں وسائل استعمال ہونے کی وجہ سے جرمنی کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ اس کے علاوہ جرمنی کی بری فوج اور بحریہ میں بھی بغاوت کی لہر اٹھ رہی تھی۔
نومبر 1918 تک جرمن فرماں روا کیسر کا فوج پر کنٹرول ختم ہو چکا تھا جس کے بعد وہ ہالینڈ چلے گئے۔
برلن میں سوشل ڈیموکریٹس نے اقتدار سنبھال کر جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا اور اتحادی افواج کو جنگ بندی کی پیش کش کی۔
اس طرح 1918 میں 11 نومبر کو دن 11 بجے مغربی محاذ پر جرمن توپیں خاموش ہو گئیں اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا۔
ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ
جنگ کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ مستقبل میں بڑی جنگوں کی پیش بندی ہو جائے گی۔ البتہ 1919 میں جنگ کے باقاعدہ خاتمے اور قیامِ امن کے لیے ورسائے میں جو معاہدہ ہوا جس میں جرمنی کو انتہائی سخت شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔ اس نے دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھی۔
اس جنگ میں لاکھوں جانیں گئیں۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی بنیاد رکھی گئی۔ مشرقی وسطیٰ کا نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوا۔
آرمینیا میں نسل کشی ہوئی اور سب سے بڑھ کر جس جنگ کو تمام جنگوں کا خاتمہ سمجھا جا رہا تھا وہ ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔