رسائی کے لنکس

شام میں انتخابات کے لیے چار برس درکار ہیں، پہلے آئین سازی ہو گی: احمد الشرع


  • شام میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کم از کم چار برس کا عرصہ درکار ہے: احمد الشرع
  • ملک کا نیا آئین بنانے کے لیے تین برس کا عرصہ لگ سکتا ہے: عرب ٹی وی کو انٹرویو
  • شام میں شہریوں کو بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے میں ایک سال کا وقت لگے گا: انٹرویو میں دعویٰ

ویب ڈیسک—شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی فورسز کے سربراہ احمد الشرع کا کہنا ہے کہ شام میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کم از کم چار برس کا عرصہ درکار ہے۔

گزشتہ ماہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے احمد الشرع کا کوئی بیان سامنے آیا ہے۔

’العربیہ ٹی وی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں احمد الشرع کا کہنا تھا کہ ملک کا نیا آئین بنانے کے لیے تین برس کا عرصہ درکار ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ شام میں شہریوں کو بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیاں دیکھنے میں ایک سال کا وقت لگے گا۔

احمد الشرع اس مسلح گروہ ’ہیئت تحریر الشام‘ کے سربراہ ہیں جس نے بشار الاسد کے لگ بھگ 25 سالہ اقتدار کو ختم کیا تھا۔ دارالحکومت دمشق میں قائم ہونے والی نئی حکومت پڑوسی ممالک کو یقین دہانی کرانے میں مصروف ہے کہ وہ مذہب کے نام پر عسکریت پسندی سے دور ہو چکی ہے۔

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ گزشتہ 13 برس سے جاری خانہ جنگی بھی ختم ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے بعد کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کئی نسلی اکائیوں کے ملک شام کا مستقبل کیا ہوگا جہاں ترکیہ اور روس سمیت کئی ممالک کے مفادات ہیں۔

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو مغربی ممالک خوش آئند قرار دے چکے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے والی فورسز ملک میں سخت مذہبی قوانین رائج کریں گے یا وہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت کو آگے بڑھائیں گے۔

احمد الشرع نے انٹرویو میں کہا کہ ہیئت تحریر الشام کو قومی مذاکراتی کانفرنس میں تحلیل کر دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ہیئت تحریر الشام کو پہلے النصرہ فرنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا جو کہ القاعدہ اور پھر داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کی بھی اتحادی رہی ہے۔ البتہ بعد ازاں اس نے ان دونوں سے علیحدگی اختیار کرکے خود کو اعتدال پسند گروہ کے طور پر پیش کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

ہیئت تحریر الشام کی تحلیل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر احمد الشرع نے کہا کہ کسی بھی ملک کو ایک ملیشیا یا کسی گروہ کی ذہنیت سے نہیں چلایا جا سکتا۔

ہیئت تحریر الشام نے ملک میں موجود اقلیتی گروہوں کو کئی بار تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ البتہ ان اقلیتوں کو خدشہ ہے کہ نئی حکمران ملک میں سخت مذہبی حکومت قائم کر سکتی ہے جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی۔

احمد الشرع کا کہنا تھا کہ قومی مذاکراتی کانفرنس میں شام کے معاشرے کے طبقات کو وسیع نمائندگی دی جائے گی جن کو مختلف ایشوز پر ووٹ کا حق حاصل ہو گا جس میں پارلیمان کی تحلیل اور نئے آئین کا قیام شامل ہے۔

شام کے شمال مشرقی علاقوں کی صورتِ حال پر ان کا کہنا تھا کہ فریقین سے مذاکرات جاری ہیں تاکہ باقی تنازعات حل ہو سکیں۔ یہ مذاکرات امریکہ کی اتحادی کرد ’سیریئن ڈیموکریٹک فورسز‘ (ایس ڈی ایف) سے بھی ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شام کو ترکیہ پر حملے کرنے کے لیے کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا پلیٹ فارم بننے کو بھی مسترد کرتے ہیں۔

ان کے بقول اسلحہ صرف ریاست کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ وزارتِ دفاع فوج میں شامل ہونے کے اہل افراد کو خوش آمدید کہے گی۔

احمد الشرع نے انٹرویو میں کہا کہ شام کے روس کے ساتھ اسٹریٹجک مفادات ہیں۔

روس بشار الاسد کا بھی قریبی اتحادی تھا۔ اس کے شام میں فوجی اڈے بھی ہیں۔

احمد الشرع کے روس کے حوالے سے بیان سے ماسکو سے مفاہمت کا اشارہ بھی ملتا ہے جو ان کی حکومت کی جانب سے بھی دیا جا چکا ہے۔

رواں ماہ ہی ایک بیان میں احمد الشرع نے کہا تھا کہ شام کے روس کے ساتھ تعلقات مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہونے چاہیئں۔

دوسری جانب روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لارووف کہہ چکے ہیں کہ روس کے فوجی اڈوں کا معاملہ دمشق میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے ساتھ زیرِ بحث آئے گا۔

احمد الشرع نے انٹرویو میں امید ظاہر کی کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ شام پر عائد کی گئی پابندیاں ختم کر دے گی۔

امریکہ کے اعلیٰ سفارتی حکام نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد رواں ماہ شام کا دورہ کیا تھا۔ ان سفارتی حکام کا کہنا تھا کہ احمد الشرع ایک حقیقت پسند کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد امریکہ نے ہیئت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع کی گرفتاری میں معاونت پر مقرر ایک کروڑ ڈالر کا انعام ختم کردیا تھا۔

انٹرویو میں جب احمد الشرع سے پڑوسی ممالک کے شدت پسند گروہوں سے متعلق خدشات پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم انقلاب برآمد کرنے پر کام نہیں کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مرحلے کو ایک انقلاب نہیں بلکہ ایک ریاست کے ذہن سے منظم کریں۔‘‘

انہوں نے اعادہ کیا کہ وہ خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کے قیام کے خواہاں ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG