ہانگ کانگ میں منگل کو حکو متی عہدیداروں اور مظاہرین کے رہنماؤں کے درمیان منگل کو دو گھنٹوں تک جاری رہنے والے مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے۔
ان مذاکرات کے بعد احتجاج کرنےوالے مظاہرین سوال کررہے ہیں کہ کیا انہیں مذاکرات جاری رکھنے چاہیئں۔
ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھائے گئے مذاکرات میں مظاہروں کے منتظمین نے کہا کہ گز شتہ تین ہفتوں سے ان کی طرف سے سڑکوں پر مظاہرے کرنے کا مقصد بیجنگ سے زیادہ سیاسی خودمختاری کا حصول ہے۔
جبکہ سرکاری عہدیداروں کا موقف تھا کہ طلبا کے مطالبات قانونی طور پر قابل عمل نہیں ہیں۔
'ہانگ کانگ فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس ' کے رہنما لیسٹر شم نے منگل کو اس پر حیرانی کااظہا ر کیا کہ حکومت اب بھی ان سے بیجنگ کے طرف سے 2017 کے انتخابات سے متعلق منصوبے کو قبول کر نے کا کہہ رہی ہے ۔
شم نے کہا کہ حکومت سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے ہمت اور خلوص کامظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔
مظاہرین کی طرف سے مذاکرات میں حصہ لینے والے ایک شخص جس نے اپنی شناخت کے لیے صرف ٹم بطور نام استعمال کیا، کا کہنا تھا کہ،" کیری لیم (چیف سیکرٹری) نے کہا کہ مستقبل میں اس حوالے سے تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کب اور اس کے خدوخال کیا ہوں گے۔ یہ ایک بے معنی جواب ہے"۔
اپنے افتتاحی بیان میں لیم نے طلبا کے رہنماؤں سے کہا کہ و ہ اپنے تین ہفتوں کے احتجاج کو ختم کردیں جو ان کے بقول تفریق اور مذاکرات میں رکاوٹ ہیں۔
لیم نے کہا کہ یہ علاقہ (ہانگ کانگ ) ایک آزاد ملک نہیں ہے اور اپنے انتخابی نظام کے بار ے میں فیصلہ نہیں کر سکتا۔
ایک انٹرویو میں ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو لیونگ چن ینگ نے اس طرف اشارہ کیا کہ کمیٹی کی تشکیل کے متعلق بات کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
اس سے پہلے منگل کو لیونگ کے اس بیان پر مظاہرین نے غم و غصہ کا اظہار کیا جس میں انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ اگر آزادانہ انتخاب کی اجازت دی گئی تو ہانگ کانگ کے غریب محنت کش طبقے کو زیادہ طاقت حاصل ہو جائے گی۔
مظاہرین کو عدم مساوات اور روزمرہ ضروریات زندگی کی بڑھتی قیمتوں کے حوالے سے بڑی تشویش ہے۔ انہیں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے ختم ہوتی ہوئی آزادی کے حوالے سے بھی تشویش ہے۔