ہانگ کانگ میں جمعہ کو جمہوریت نواز مظاہرین اور تقریباً ایک ہفتے سے جاری اس احتجاج سے نالاں دیگر شہریوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور بیچ بچاؤ کروانے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔
ہانگ کانگ کے ایک اہم اور مصروف کاروباری علاقے مونگ کوک میں چین کے حامی سینکڑوں افراد نے یہاں پر احتجاج کرنے والوں پر دھاوا بول دیا۔ احتجاجیوں کے خیمے اور یہاں لگے بینرز پھاڑ دیے۔
ہانگ کانگ میں ایک ہفتے سے چین کی طرف سے 2017ء میں خطے میں ہونے والے انتخابات کے لیے امیدواروں کی چھانٹی کے فیصلے کے خلاف ہزاروں افراد احتجاجی مظاہرے کرتے چلے آرہے ہیں۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی نے متنبہ کیا ہے کہ ایسے وقت جب ہانگ کانگ چیف ایگزیکٹو مستعفی ہونے کے مطالبات کو مسترد کر چکے ہیں، وہاں جمہوریت نواز مظاہرے "بری طرح ناکامی" کا سامنا کرنا پڑےگا۔
پارٹی کے زیر انتظام شائع ہونے والے اخبار "پیپلز ڈیلی" کے صفحہ اول پر جمعہ کو تحریر ادریے میں بیجنگ کے اس موقف کو دہراتے ہوئے کہ یہ مظاہرے غیر قانونی ہیں، کہا گیا کہ وسیع تر جمہوری اصلاحات میں "مزید کوئی گنجائش" نہیں۔
ہانگ کانگ میں مظاہرہ کرنے والے طلبا کے رہنما بیجنگ نواز حکومت سے مذاکرات پر رضا مند ہو چکے ہیں جس سے توقع کی جارہی ہے کہ کئی روز جاری احتجاج سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال بہتر ہوسکے گی۔
جمعہ کو علی الصبح بات چیت کے لیے آمادگی کے اس اعلان سے چند گھنٹے پہلے ہی ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو نے مظاہرین کے رہنماوں کو ملاقات کی پیش کی تھی۔
لیکن چیف ایگزیکٹو لیونگ چن ینگ نے احتجاجیوں کی طرف سے مستعفی ہونے کے بنیادی مطالبے کو رد کردیا۔
مظاہرین نے لیونگ کو مستعفی ہونے کے لیے جمعرات کو نصف شب تک کی مہلت دے رکھی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ بصورت دیگر میں سرکاری عمارتوں پر دھاوا بولتے ہوئے ان پر قبضہ کر لیں گے۔
لیکن اس مہلت کے ختم ہونے کے بعد ان سرکاری عمارتوں کے قریب سے کسی بھی طرح کے تشدد کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ یہاں ہزاروں مظاہرین کے علاوہ عمارتوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
جمہوریت کے حامی گروپ "آکوپائی سنٹرل" نے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ "بات چیت سے ملک کے موجودہ سیاسی تعطل میں کوئی فیصلہ کن موڑ آسکتا ہے"۔
لیکن احتجاج کرنے والے دیگر طلبا گروپوں کی طرح آکوپائی سنٹرل بھی چیف ایگزیکٹو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتا آرہا ہے۔
قبل ازیں ہانگ کانگ میں حکام نے ایک ہفتے سے شہر کے مرکز میں براجمان ہزاروں مظاہرین کو فوری طور پر منتشر ہونے کا کہا تھا۔ ان مظاہروں کی وجہ سے ایشیا کے اس اہم اقتصادی مرکز میں معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔