ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظایرین نے حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد کہا ہے کہ وہ کلیدی سرکاری عمارتوں کے آگے سے رکاوٹیں ہٹالیں گے لیکن مظاہرے میں شریک طلبا کے رہنماؤں نے احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
ایک ہفتہ قبل ہزاروں افراد چین کی طرف سے ہانگ کانگ کے 2017ء کے انتخابی امیدواروں کی چھان بین کے فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے اور انھوں نے شہر کے مرکزی علاقے میں دھرنا دے رکھا ہے۔ یہ لوگ چیف ایگزیکٹو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہفتہ کو دیر گئے بیجنگ کے حمایت یافتہ ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو لیونگ چن ینگ نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں ایک بار پھر مظاہرین سے گھروں کو واپس جانے کا کہا۔
"حکومت اور پولیس کا یہ فرض اور عزم ہے کہ وہ معمولات زندگی بحال کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے تاکہ حکومت اور ہانگ کانگ کے 70 لاکھ لوگ اپنے معمول کے کام اور زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔"
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ "سب سے فوری ضرورت" یہ تھی کہ سرکاری صدردفاتر تک کا راستہ صاف ہو" تاکہ تین ہزار سرکاری ملازمین معمول کے مطابق اپنے دفتر جاسکیں اور شہریوں کی خدمت کریں۔"
ہفتے کو دیر گئے ایک بار پھر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوئی۔ پولیس ان لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے "مرچوں کا اسپرے" اور لاٹھیاں اٹھائے ہوئے تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہجوم میں شامل لوگوں نے اہلکاروں کو برا بھلا کہہ کر انھیں اشتعال دلایا لیکن مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ پولیس ان پر حملہ کرنے والے ہجوم کو روکنے میں ناکام رہی۔
مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے انھیں منشتر کرنے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے، لیکن حکومت نے اس دعوے کو صریحاً غلط قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
اتوار کو بھی شہر میں صورتحال کشیدہ رہی اور سڑکوں پر موجود مظاہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ پولیس ان کے خلاف پھر ایسی ہی کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔