رسائی کے لنکس

وادیٴ تیراہ میں دو مرد اساتذہ اور ایک خاتون غیرت کے نام پر قتل، پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلعے خیبر کے دور افتادہ علاقے وادیٴ تیراہ میں غیرت کے نام پر ایک خاتون سمیت تین افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق واقعہ منگل کو وادیٴ تیراہ کے علاقے بازار ذخہ خیل میں پیش آیا جہاں ایک خاتون کے رشتے داروں نے گھات لگا کر اسکول کے دو اساتذہ زاہد گل اور عبد الہادی پر فائرنگ کی جس سے زاہد گل کی موت موقعے پر ہی ہو گئی۔ جب کہ عبد الہادی کا انتقال اسپتال میں ہوا۔ رپورٹس کے مطابق بعد ازاں خاتون کے اہلِ خانہ نے اسے گھر میں قتل کیا۔

مقامی افراد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مقتول خاتون کے اہل خانہ نے اسکول ٹیچر کے ساتھ خاتون کے مبینہ مراسم کی بنیاد پر تینوں افراد کو قتل کیا ہے۔

ضلع خیبر میں غیرت کے نام پر قتل پر درج ہونے والا یہ پہلا مقدمہ ہے جو تیراہ پولیس تھانے میں درج کیا گیا ہے۔

تیراہ پولیس تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر شمشاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فریقین میں سے کسی نے واقعے کے خلاف رپوٹ درج نہیں کرائی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے سرکار کی مدعیت میں اس واقعے کا مقدمہ درج کیا ہے اور چند مبینہ سہولت کاروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا ردِ عمل

ضلع خیبر میں انسانی حقوق کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک منظور آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں غیرت کے نام پر قتل کے اس واقعے کا مقدمہ درج ہونے کا خیر مقدم کیا۔

’خون کو خون تصور کرنا ہوگا‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:35 0:00

انہوں نے کہا کہ مقدمہ درج ہونے سے خواتین کے خلاف تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہو چکا ہے۔ پولیس اور عدلیہ نے کام شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ان واقعات کو عدلیہ کے ذریعے نمٹانے کے لیے پولیس کا کردار انتہائی اہم ہے۔

سابق قبائلی علاقے اور موجودہ ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور سماجی کارکن ناہید آفریدی نے مقدمہ درج ہونے پر اظہارِ اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی تب ہی ممکن ہے جب خیبر سمیت تمام قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس اسٹیشن قائم ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں عدلیہ اور انتظامیہ کو مزید فعال کرنے سے بھی خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی آئے گی۔

شمالی وزیرستان میں مقدمہ

گزشتہ برس شمالی وزیرستان کے گاؤں شمپلان میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی دو کمسن لڑکیوں کی ہلاکت کا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں پولیس نے لڑکیوں میں سے ایک کے والد سمیت تین دیگر رشتے داروں کو بھی گرفتار کیا تھا۔

واقعے کی مزید تحقیقات کے لیے بنوں ڈویژن کے علاقائی پولیس افسر نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی تھی۔

متاثرہ خاندان کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا تاہم اس نے 2009 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی ’راہِ نجات‘ شروع ہونے کے بعد شمالی وزیرستان منتقل ہوکر سرحدی گاؤں شمپلان میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

ایک سال میں کتنے واقعات ہوئے؟

پاکستان میں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد اور خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم زیادہ تر واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے۔

پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی تین مئی 2021 کو جاری رپورٹ کے مطابق 2020 میں ملک بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے 430 واقعات ہوئے۔ ان واقعات میں قتل ہونے والوں میں 363 خواتین اور 148 مرد شامل ہیں۔

قانون سازی قتل کے واقعات کی روک تھام میں مدد دے گی: تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:31 0:00

تاہم پاکستان کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے 2556 واقعات ہوئے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے مجموعی طور پر 9401 اور گھریلو خواتین پر تشدد کے 1422 واقعات رپورٹ ہوئے۔

مقدمات میں فیصلہ کیوں نہیں ہوتا؟

پشاور ہائی کورٹ سے منسلک ایک سینئر وکیل شاہ نواز خان کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ملزم انفرادی طور پر نہیں کرتا۔ بلکہ اس قسم کے واقعات میں پورا خاندان یا کئی خاندان ملوث ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ کوئی شہادت نہیں چھوڑتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات پولیس کے سامنے بھی نہیں لائے جاتے۔ اب نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے مقدمات پولیس کی مدعیت میں تو درج کیے جاتے ہیں۔ مگر گواہان اور شواہد کی عدم دستیابی کے نتیجے میں مقدمہ اتنا کمزور بنایا جاتا ہے جس کا فائدہ عدالت میں ملزمان کو پہنچتا ہے اور وہ بری ہو جاتے ہیں۔

نوشہرہ میں غیرت کے نام پر چار خواتین سمیت سات افراد قتل

خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر رواں سال پشاور سے ملحقہ نوشہرہ میں چار خواتین سمیت سات افراد کے قتل کا معاملہ سر فہرست ہے۔

لگ بھگ چار سال قبل پسند کی شادی کرنے والی خاتون کو پشاور کے چمکنی تھانے کی حدود میں تین اپریل کو رشتہ داروں نے گولیاں مار کر قتل کیا تھا۔ جب کہ 28 اپریل کو خاتون کے رشتے داروں نے نوشہرہ کے علاقے اکبر پورہ میں گھر میں گھس کر تین خواتین سمیت پانچ افراد کو قتل کیا تھا۔

مقتولین میں شادی کرنے والا لڑکے انور علی اور ان کا بھائی بھی شامل تھے۔

انور علی کے ایک اور بھائی کو اپریل کے وسط میں پشاور کے علاقے فقیر آباد میں قتل کیا گیا تھا۔ قتل ہونے والے جوڑے کے دو کم سن بچے بھی ہیں۔

XS
SM
MD
LG