پیر کے روز متحدہ عرب امارات کے دار الحکومت اور علاقے کے بہت بڑے تجارتی اور سیاحتی مرکز ابوظہبی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے نزدیک یمن کے حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے حملے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کے جواب میں یمن میں حوثیوں کے خلاف لڑنے والے اتحاد نے جس کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے، منگل کے دن صنعا پر بمباری کی جس سے اطلاعات کے مطابق بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔
متحدہ عرب امارات اس اتحاد کا حصہ ہے جو یمن میں حوثیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اور پیر کے حملے کے بعد اس نے متنبہ کیا تھا کہ اس حملے کا جواب دیا جائے گا، جو اتحاد نے صنعا پر اگلے ہی روز بمباری کر کے دے دیا ہے۔
ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یمن میں حوثیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اور انہیں ہر قسم کی مدد فراہم کرتا ہے۔ لیکن ایران اس کی تردید کرتا ہے۔
عالمی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ دراصل یمن کی جنگ مشرق وسطیٰ کے دو بڑے حریف ملکوں ایران اور سعودی کے درمیان ہونے والی پراکسی وار ہے۔ ابوظہبی پرحوثیوں کی جانب سے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ ایران اور سعودی عرب اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لیے براہ راست مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات ٹوٹنے کے کوئی چھ برس کے بعد پہلی بار ایرانی سفارت کار اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) میں ایران کی نمائندگی کرنے سعودی عرب پہنچے ہیں، جنہیں سعودی عرب نے ویزہ دیا ہے
ابوظہبی پر حوثیوں کے اس حملے کے خطے پر کس نوعیت کے اثرات پڑیں گے۔ اس بارے میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک ماہر ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا ہے کہ اوّل تو یہ کہ یہ حملہ حوثیوں کی جانب سے ایک پیغام تھا کہ ان پر جو بمباری کی جا رہی ہے، وہ اس پر خاموش نہیں رہیں گے اور یمن کی حدود سے باہر بھی کارروائی کریں گے، جیسا کہ وہ سعودی عرب ہر بھی میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہتے ہیں، اسی طرح وہ اتحاد میں شامل دوسرے ملکوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور اپنا بدلہ لے سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی تھا کہ وہ انہیں اقتصادی طور پر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کیونکہ ابو ظہبی اور دبئی وغیرہ خلیج کے علاقے میں معاشی اور کاروباری سرگرمیوں کے مراکز ہیں۔ اور اگر وہاں ایسے حملوں سے عدم تحفظ اور بے یقینی کی فضا پیدا کر دی جائے تو پھر کاروبار کرنے والے اور دوسرے سرمایہ کار اپنے کاروبار اور سرمایہ کاری بند کر سکتے ہیں۔ اور وہ بھی ایسے میں جب کہ سعودی عرب یہ کوشش کر رہا ہے کہ سرمایہ کار اور کاروباری افراد اگر اس کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے تجارتی دفاتر نئے تعمیر کیے جانے والے سعودی شہر نیوم میں لے آئیں۔ یہ صورت حال ابو ظہبی اور دبئی وغیرہ کے لیے بہت مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھیں گے اور انہیں بھاری اقتصادی نقصان ہو گا۔
یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ اس قسم کے حملوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی ملکوں میں بھاری معاشی نقصانات کا خوف پیدا کر کے انہیں حوثیوں کے ساتھ مذاکرات اور جنگ ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
اس حملے کا ایک فوری نتیجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے حالانکہ اس کے سبب نہ تو تیل کی پیداوار میں فوری طور پرکوئی کمی آئی ہے نہ ہی اس کی ترسیل کے نظام میں کوئی خلل پڑا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حملے اور اس کے جواب میں اتحاد کی جانب سے صنعا پر بمباری اور حوثیوں کی جانب سے انتقام میں مزید حملوں کی دھمکی اس عمل پر اثر ڈالے گی جو ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جاری ہے اور جس کے نتیجے میں سعودی عرب نے جدہ میں قائم اسلامی ملکوں کی تنظیم میں نمائندگی کے لیے ایرانی سفارت کاروں کو ویزہ دیا ہے اور یہ سفارت کار وہاں پہنچ گئے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق حسنات کا خیال ہے کہ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل کافی آگے بڑھ چکا ہے اور ایرانی سفارت کاروں کو سعودی عرب کی جانب سے ویزہ دیا جانا اور ایران سفارت کاروں کا وہاں پہنچ جانا اس عمل کی پہلی منزل ہے جو کامیابی سے طے کر لی گئی ہے۔ اب شاید سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات بھی پہلے کی طرح یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ حملہ ایران نے کرایا ہے اور ان کی اطلاع کے مطابق اب تک ان میں سے کسی نے کھل کر ایران کا نام بھی نہیں لیا ہے۔
اس وقت نہ صرف متحدہ عرب امارات ایران سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہے بلکہ امکان یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جلد ہی باقاعدہ سفارتی تعلقات بھی قائم ہو جائیں گے۔ اور پھر یہ تاثر دیا جا سکتا ہے کہ یمن کی جنگ حوثیوں اور وہاں کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان ہے، جس میں اتحاد حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ اور ایران جو پہلے ہی اس جنگ میں ثالثی کی پیشکش کر چکا ہے، حوثیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مذاکرات کا آغاز کرا سکے۔
حوثی حملہ اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ
پیر کے روز ابوظہبی پر حملہ ہوا اور منگل کی صبح تیل کی بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ خاص طور پر اس تیل کی قیمت میں جسے عرب لائٹ کہا جاتا ہے اور جو مشرق وسطیٰ سے نکلتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا۔ اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چاہے تیل ہو، چاہے اسٹاک مارکیٹ میں اسٹاک اور بانڈ کی قیمتیں یا دوسری اشیائے صرف ہوں، جب اس قسم کے حملے ہوتے ہیں تو ان کی قیمتوں میں فوری طور پر تبدیلی آتی ہے، زیادہ تر صورتوں میں یہ قیمتیں بڑھ جاتی ہیں خواہ اس کا کوئی جواز ہو یا نہ ہو۔ اسے ہیڈ لائن ایفیکٹ ( Head line effect) یعنی خبروں کی سرخیوں کا اثر کہا جاتا ہے اور یہ ہی پیر کے حملے کے بعد منگل کے روز تیل کی قیمتوں کے سلسلے میں بھی ہوا۔ کیونکہ وہ خطہ دنیا کے لیے تیل کی پیداوار اور فراہمی کا ایک اہم مرکز ہے۔
تیل کی صنعت کے ایک تجزیہ کار مسعود ابدالی کا کہنا ہے تیل کی قیمتوں میں یہ اضافہ خبروں کے اثر کے علاوہ اس حقیقی خطرے کے پیش نظر بھی ہوا ہے کہ مزید حملوں کی صورت میں تیل کی نقل و حمل اور فراہمی میں خلل پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ امریکہ سے نکلنے والے تیل کی قیمت میں جسے WTI یا West Texas Intermediate اور یورپ سے نکلنے والے تیل کی قیمتوں میں، جسے برینٹ کہا جاتا ہے اتنا اضافہ نہیں ہوا، جتنا عرب لائٹ کی قیمتوں میں ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطی کے تیل کے باہر جانے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک خلیج فارس کے ذریعے، جہاں تیل بردار جہاز آبنائے ہرمز سے گزرتے ہیں اور دوسرا راستہ جہاں سے سعودی عرب کا کچھ تیل گزرتا ہے، وہ بحیرہ احمر یا Red Sea سے ہو کر آبنائے باب المندب سے ہوتا ہوا بحیرہ عرب میں داخل ہوتا ہے۔ اور ان دونوں راستوں سے گزرنے والے تیل بردار جہازوں کو خطرہ ہو سکتا ہے اور دنیا کے لیے تیل کی سپلائی میں خلل پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ جنگی سرگرمیاں بڑھنے کی صورت میں آبنائے ہرمز بھی ان جہازوں کے لیے خطرناک ہو جائے گی اور آبنائے باب المندب بھی جو یمن اور جبوتی کے درمیان ایک تنگ سی آبنائے ہے۔ ماضی میں حوثی کئی بار وہاں سے گزرنے والے جہازوں پر حملے کر بھی چکے ہیں۔ اس لیے دنیا کو یہ خطرہ ہو گیا ہے کہ کشیدگی بڑھنے سے تیل کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حملے کے دوسرے ہی دن تیل کی قیمتوں میں، خاص طور پر عرب لائٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔
مسعود ابدالی نے کہا کہ head line effect میں تو بظاہر استحکام آ گیا ہے اور قیمتیں مزید نہیں بڑھ رہی ہیں۔ لیکن اگر کشیدگی بڑھی اور حوثیوں نے جوابی حملہ کیا، جس کی انہوں نے دھمکی دی ہے یا متحدہ عرب امارات نے کوئی مزید کارروائی کی اور آبنائے ہرمز اور باب المندب کی گزرگاہیں متاثر ہوئیں تو پھر یقیناً تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا کی معیشتیں کرونا کے اثرات سے نکلنے کی سعی کر رہی ہیں، تیل کی اضافی قیمتیں ان معیشتوں کا، خاص طور پر ترقی پذیر معیشتوں کا کیا حشر کریں گی، ابھی یہ کہنا مشکل ہے۔