|
یمن کے حوثی باغیوں نے نومبر 2023 میں قبضے میں لیے گئے "گلیکسی لیڈر" نامی سامان بردار جہاز کے عملے کو رہا کر دیا ہے۔ یہ رہائی ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب صدرٹرمپ نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس میں وزیر خارجہ مارکو روبیو پر زور دیا گیا کہ وہ حوثیوں کوغیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیں۔
حوثیوں نے اس جہاز کو اسرائیل-حماس جنگ کے دوران بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملوں کے شروع میں اپنے قبضے میں لیا تھا۔
بحری جہاز کے عملے کی رہائی شاید امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔یہ جہاز اب بھی یمن کے حدیدہ شہر کی بندرگاہ پر کھڑا ہے۔
حوثیوں نے کہا کہ حماس نے ان سے علیحدہ طور پر جہاز کے عملے کے 25 افراد کی رہائی کی درخواست کی تھی، جس میں فلپائن، بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین اور میکسیکو کے شہری شامل تھے۔
حماس ایک ایسی تنظیم ہے جسے امریکہ اور کئی مغربی ملک دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔
امریکہ کی نئی انتظامیہ کے اقدامات
صدرٹرمپ نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس میں وزیر خارجہ مارکو روبیو پر زور دیا گیا کہ وہ حوثیوں کوغیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیں۔
وزیر خارجہ روبیو نے علیحدہ علیحدہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کو فون کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ ارب امارات نے 2015 سے حوثیوں کے خلاف لڑنے والے اتحاد کی قیادت کی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں، اب امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ وہ اپنے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ حوثیوں کی صلاحیتوں اور کارروائیوں کو ختم کرنے، انہیں وسائل سے محروم کرنے، اور اس طرح امریکی اہلکاروں اور شہریوں، امریکی شراکت داروں، اور بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملے بند کرنے کے لیے تعاون کرے۔
بائیڈن نے اپنی مدت کے اوائل میں حوثیوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے اقدام کو ختم کر دیا۔ انہوں نے اس اقدام کو ختم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے ذریعہ عائد ہونے والی پابندیوں سے عام یمنی لوگوں کو انسانی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس اقدام کے بعد یمن میں ابھی تک برقرار جنگ بندی کی حمایت کا بھی حوالہ دیا تھا۔
اس ضمن میں یمن کی "باشا رپورٹ رسک ایڈوائزری" کمپنی سے منسلک ماہر محمد الباشا کہتے ہیں، "حوثیوں کی طرف سے اس اقدام کا مقصد نئی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے خیر سگالی کا اظہار ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کا یہ اقدام غزہ میں جنگ بندی کے بعد اپنے حملوں کو کم کرنے کی تازہ ترین کوشش کا اظہار ہے۔
واشنگٹن کے تازہ ترین اقدام سے باغیوں کے ساتھ تناؤ کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
حوثیوں نے کہا کہ انہوں نے سلطنت عمان کی ثالثی کے بعد بحری جہاز کے عملے کو رہا کیا ہے ۔
عمان کی فضایہ رائل ایئر فورس کا ایک طیارہ بدھ کو گلیکسی لیڈر کے رہائی پانے والے عملے کو یمن سے لے گیا۔ مسقط میں آزادی کی ٖفضا میں عملے کے ارکان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
حوثیوں نے کہا کہ حماس نے ان سے علیحدہ طور پر جہاز کے عملے کے 25 افراد کی رہائی کی درخواست کی تھی، جس میں فلپائن، بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین اور میکسیکو کے شہری شامل تھے۔
باغیوں کے زیر کنٹرول "ایس اے بی اے" نیوز ایجنسی کے مطابق حوثیوں نے ایک بیان میں کہا، "یہ اقدام غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی حمایت میں اٹھایا گیا ہے۔"
جہاز کا اسرائیلی ارب پتی شہری سے تعلق:
حوثیوں نے کہا کہ انہوں نے گلیکسی لیڈر بحری جہاز کو اسرائیل سے تعلق کی بنا پر اغوا کیا تھا۔اس جہاز پر حملے سے باغیوں نے بین الاقوامی پانیوں میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی مہم کا آغاز کیا جن میں بحیرہ احمر، خلیج عدن اور ان دونوں کوجوڑنے والی آبنائے باب المندب شامل ہیں۔
گلیکسی لیڈر کے مالکان کے نمائندے نے اس خبر پر بدھ کو کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
’بہاماس‘ کا جھنڈا لہرانے والے اس بحری جہاز کا تعلق ایک اسرائیلی ارب پتی ابراہیم رامی انگار سے ہے جو اسرائیل کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔
باغیوں نے گلیکسی لیڈر پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ حملہ کیا تھا۔حوثی باغی اس حملے کی پروپیگنڈہ ویڈیو مسلسل چلاتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس جہاز پر حملے کے دوران ایک موقع پر جہاز پر موسیقی کی ویڈیو بھی شوٹ کی۔
حوثیوں نے پیر کے روز عندیہ دیا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی شروع ہونے کے بعد اب وہ بحیرہ احمر کی راہداری میں اپنے حملوں کو صرف اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں تک محدود کر دیں گے۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو وسیع تر حملے دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں۔
تاہم، اے پی کے مطابق حوثیوں کا یہ اقدام ممکنہ طور پر عالمی کمپنیوں کو اس راستے پر دوبارہ داخل ہونے کی ترغیب دینے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ عالمی کمپنیوں کے لیے یہ راستہ ایشیا اور یورپ کے درمیان کارگو اور توانائی کی ترسیل کے لیے اہم ہے۔
اس راستے سے گزرنے والی بحری جہازوں پر باغیوں کےحملوں نے خطے میں ٹریفک کو نصف کر دیا ہے۔ نتیجتاً تجارتی ٹریفک کم ہونے سے مصر کی آمدنی میں بہت کمی آئی ہے، جو بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کو ملانے والی نہر سویز کا انتظام کرتا ہے۔
حوثیوں کے حملوں میں 100 سے زیادہ تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا
اکتوبر 2023 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں نے 100 سے زیادہ تجارتی جہازوں کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا ہے۔
حماس کے , جسے امریکہ نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے، اسرائیل پر اچانک دہشت گردی کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1,200 لوگ ہلاک ہو گئے تھے جبکہ لگ بھگ 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائیوں میں غزہ کے حماس کے زیر اہتمام صحت کے حکام کے مطابق 46,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کے صحت کے حکام ک نے , جو شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کرتے، کہا ہے کہ ہلاکتوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔
حوثیوں نے اپنی مہم کے دوران دو کشتیوں کو ڈبو دیا جس میں چار ملاح بھی مارے گئے۔
اس دوران باغیوں کے دیگر میزائلوں اور ڈرونز کو یا تو بحیرہ احمر میں الگ الگ امریکی اور یورپی قیادت والے اتحاد کے ذریعے روکا گیا یا پھر وہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔
باغیوں کے اہداف میں مغربی فوجی جہاز بھی شامل ہیں۔باغیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف اسرائیل، امریکہ یا برطانیہ سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنایا۔
حملوں کا نشانہ بننے والے بہت سے بحری جہازوں کا ان ملکوں سے بہت کم یا کوئی تعلق نہیں تھا جبکہ نشانہ بنائے گئے جہازوں میں سے کچھ کا تعلق ایران سے بھی تھا۔
حالیہ ہفتوں میں حوثیوں کی طرف سے حملوں کی رفتار میں کمی دیکھی گئی ہے، خاص طور پر سمندر میں بحری جہازوں پر حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کی ایک وجہ امریکہ کی طرف سے حوثیوں کے خلاف چلائی گئی فضائی حملوں کی مہم ہو سکتی ہے۔
تھنک ٹینک"انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز" کے مطابق امریکہ اور اس کے شراکت داروں نے حوثیوں پر 260 سے زیادہ مرتبہ حملے کیے۔
(اس خبر میں شامل مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم