رسائی کے لنکس

'تنخواہ بڑھ نہیں رہی مگر خرچوں میں مسلسل اضافہ '


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کورنگی کی عوامی کالونی میں رہنے والی 45 سالہ بلقیس رحمان گھروں پر کام کاج کرکے گُزر بسر کرتی ہیں۔ پچھلے کئی برس سے ان کی آمدنی 30 ہزار روپے تک ہی محدود ہے۔ لیکن اسی دوران ان کے تین کمروں کے گھر کے کرائے میں دو برس میں سات ہزار روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔

ان کے دونوں بیٹےبھی ملک کی بڑی ٹیکسٹائل ملز میں کام کرتے ہیں جہاں ان کی آمدنی میں پچھلے دو برسوں میں بمشکل آٹھ، آٹھ ہزار روپے اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں آنے جانے کے لیے موٹر سائیکل کے پیٹرول اور سب سے بڑھ کر آٹے، چینی، گھی، تیل، مصالحہ جات، صابن، ڈٹرجنٹس، بجلی، گیس اور موبائل فون کے بلز سمیت، بچوں کے اسکول کی فیسیں اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے۔

بلقیس کی چھوٹی بہو، عروج ارسلان کا کہنا ہے کہ سات افراد پر مشتمل گھرانے کے لیے مہینے بھر کا راشن خریدنے کے لیےپہلے 10 سے 12 ہزار روپے کافی ہوتے تھے۔ لیکن اب یہ رقم 30 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے صرف آٹے کا 10 کلو کا تھیلاہی ایک ہزار روپے سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔

ایسے میں آپ کو اپنی فہرست میں بہت سی ضروری چیزوں کو بھی منہا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نئے فلیٹ کی خریداری کے لیے جو رقم عروج اور ان کے شوہر نے جمع کررکھی تھی اس میں سے بہت بڑا حصہ اس وقت خرچ کرنا پڑ گیا جب انہیں قدرت نے پہلے بچے سے نوازا۔

عروج کا کہنا تھا کہ انہیں مشکل لگتا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں ایک اوسط درجے ہی کا فلیٹ خریدنے کا اپناخواب پورا کرپائیں گے۔ بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عروج بھی اب اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے کوئی روزگار تلاش کررہی ہیں تاکہ آمدنی کو بڑھایا جاسکے۔

بلقیس رحمان کا کہنا ہے کہ اب سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس قدر مہنگائی کے باعث گھر والے پھل بھی کم ہی خرید پارہے ہیں۔ انہوں نے روہانسا ہوکر اکہا کہ مہنگائی سے بڑھتی مشکلات کا حل ان کی تو سمجھ میں نہیں آرہا۔

پاکستان میں مہنگائی: خریدار اور دکان دار سب پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:33 0:00


اگست میں مہنگائی گزشتہ سال اگست سے 27 فی صد زیادہ رہی

ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے جمعرات کو جاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح، پچھلے سال اگست کے مقابلے میں 27.3 فی صد رہی۔ جولائی میں یہ اضافہ 24.9 فی صد پر تھا۔ اس طرح اگست میں ہونے والا یہ اضافہ انچاس سال کے دوران ہونے والاسب سے تیز رفتار اضافہ تھا۔ سال کے پہلے مہینے میں ملک میں مہنگائی کی شرح 13 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔ نومبر 2008 میں مہنگائی کی سال بہ سال کی شرح 24.3 فی صد بھی ریکارڈ کی جاچکی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس قدر تیزی سے مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ ٹرانسپورٹ، غذائی اشیا، صحت، پانی، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہے۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اس قدر تیزی سے اضافے نے انتہائی کم آمدنی والوں کے ساتھ اوسط درمیانی آمدنی والے گروپس کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ ایسے طبقات کا کہنا ہے کہ ایک جانب ان کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوپارہا اور دوسری جانب مہنگائی میں تیزی سے اضافے سے انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

مہنگائی میں اضافے کی چار وجوہات

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہتھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی چار اہم وجوہات ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو دو سال قبل آنے والی کرونا وبا کےنتیجے میں لگنے والے لاک ڈاؤن سے دنیا بھر میں تجارتی اور معاشی سرگرمیاں شدید متاثر ہوئیں۔ جب کسی حد تک وبا کا زور ٹوٹا اور دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوئیں تو سپلائی چین متاثر ہو گئی جس کا اثر یہ پڑا کہ دنیا بھر میں توانائی سے متعلق درآمدات مہنگی ہوگئیں۔

عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں، کوئلہ مہنگا ہوگیا، گیس کی قیمتیں بھی تاریخی سطح کو چھوںے لگیں۔ فریٹ کرایوں میں اضافے سے تجارتی سامان کی ترسیل متاثر ہوئی اور بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ رسد نہ ہونے کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں نکلا۔

بہرحال دنیا کو امید تھی کہ چند ماہ میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی کہ اسی دوران چھ ماہ قبل یوکرین اور روس کی جنگ چھڑ گئی۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو غذائی اشیا کی تر سیل کی جاتی ہے۔

جنگ چھڑنے کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا، غذائی اشیا جیسا کہ گندم، چنا، دالیں اور دیگر غذائی اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا۔ چوں کہ پاکستان میں اس سال گندم کم پیدا ہوئی ہے تو اس کے اثرات ظاہر ہے کہ پاکستان پر بھی پڑے اور ملک میں گندم کے آٹے کی قیمت 100 روپے فی کلو سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔


ڈاکٹر اشفاق حسن مہنگائی کی حالیہ بڑی لہر کی ایک اور وجہ پاکستان کو قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بھی قرار دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے کے لیے حکومت کو بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھانی پڑیں، ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا پڑا، افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑی اور اس کا اثر لامحالہ مہنگائی ہی کی صورت میں نکلنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فنڈ کی شرائط ظالمانہ حد تک سخت ہیں۔

سیلاب کے اثرات

ڈاکٹر اشفاق کے خیال میں چوتھی تباہی ملک میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے آئی، اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 31 لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں جن میں سرفہرست کپاس کی فصل ہے جو پاکستان کی سب سے بڑی برآمد یعنی ٹیکسٹائل کا خام مال ہے۔

اُن کے بقول یہ خام مال دستیاب نہ ہونے کی صورت میں یا تو ہمیں باہر سے منگوانا پڑے گا یا پھر ملوں کو بند کرنا ہوگا اور ان دونوں کا اثر ملک کی آئندہ سال کی برآمدات پر پڑے گا۔ پاکستان کو گزشتہ مالی سال کے دوران ہی 48 ارب ڈالر کا خطیر تجارتی خسارہہواے اور برآمدات کم ہونے کی صورت میں ایسی ہی صورتِ حال رواں سال کے اختتام پر بھی نظر آئے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیلاب سے زراعت کی تباہی کے اثرات ابھی آنے باقی ہیں جس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

مہنگائی کی اس لہر میں غریب طبقات کو کیسے بچایا جاسکتا ہے

معاشی ماہرین مستقبل قریب میں عالمی حالات کے تناظر میں مہنگائی میں کسی کمی کے امکان کو رد کر رہے ہیں۔

معاشی ماہر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے دوبارہ بات کی جانی چاہیے اور اسے اپنی شرائط نرم کرنے کے لیے قائل کرنا چاہیے۔

دوسری جانب حکومتی وسائل کو غیر ضروری کاموں پر خرچ کے بجائے انہیں سماجی شعبے کے پروگراموں جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر میں خرچ کرنا ہوگا تاکہ کم آمدنی والے طبقے کے لوگوں کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔

"حکومت کو عام لوگوں کی معاشی مشکلات کا مکمل ادراک ہے"

دریں اثنا وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عام آدمی کی مشکلات سے آگاہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نہ کرتی تو چند ماہ ہی میں پاکستان سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوسکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے سیاسی نقصان پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کو ترجیح دی۔ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ کم آمدنی والے طبقات پر بوجھ کم سے کم ڈالا جائے اور اسی لیے ایندھن پر سیلز ٹیکس فی الحال نہیں عائد کیا گیا جب کہ بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز بھی 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو معاف کیے جا چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG