پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان قرض پروگرام کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے اور فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو تقریباً 70 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط مل جائے گی۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ محض چند ماہ پہلے منتخب حکومت کے اصرار کے باوجود پاکستان کو قسط ملنے میں مشکلات کا سامنا تھا اور اب اچانک آئی ایم ایف نے کیسے ہامی بھر لی؟
یاد رہے کہ جون کے اواخر میں گزشتہ پروگرام نامکمل رہ جانے کے بعد آئی ایم ایف اور پاکستان نے نو ماہ کے قلیل المدت پروگرام پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر ملنے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسط کے طور پر 1.2 ارب ڈالر جولائی میں مل چکی ہے اور اب دوسری قسط بھی ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے کے بعد ملنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
پاکستانی حکام نے اصلاحات کے عزم کا اعادہ کیا ہے لیکن ابھی مشکلات ختم نہیں ہوئیں: آٗی ایم ایف
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط اس معاہدے کے بعد پاکستان کو تقریباً 70 کروڑ ڈالر مل سکیں گے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے مالی استحکام کو آگے بڑھانے، توانائی کے شعبے میں لاگت میں کمی لانے والی اصلاحات کو تیز کرنے، مارکیٹ کی طرف سے طے شدہ شرح مبادلہ کی واپسی کو مکمل کرنے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے سمیت سرکاری اداروں اور گورننس اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستانی حکام کے عزم کی حمایت کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستانی حکام رواں مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی کے کم از کم 0.4 فی صد کا بنیادی سرپلس حاصل کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں جس کی بنیاد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات کو کنٹرول میں رکھنے میں ہے۔
فنڈ کے مطابق اگر ضروری ہو تو ہنگامی اقدامات کے ذریعے ریونیو بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے حکام ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور محصولات بڑھانے کی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں اور عوامی سرمایہ کاری اور اخراجات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ معاشرے کے انتہائی غریب افراد کو کسی حد تک سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے مختص بجٹ کے تحت بروقت ادائیگیوں کو جاری رکھا جائے۔ اس پروگرام کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو براہ راست کیش دیا جاتا ہے۔
روپے کو مصنوعی کے بجائے حقیقی قدر پر رکھنے پر اتفاق
پاکستانی حکام نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کو کم کرنے اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے روپے کی قدر کو مارکیٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے حکام نے ایکسچینج مارکیٹ میں شفافیت اور کارکردگی کو مضبوط بنانے اور روپے کو متاثر کرنے کے لیے انتظامی اقدامات سے باز رہنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
افراطِ زر یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ سخت مانیٹری پالیسی کا نفاذ جاری رکھے جب کہ ریاستی ملکیت والے اداروں کی قانونی منظوری کے بعد نجکاری کے منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھیں۔
یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اثاثوں کے انتظام چلانے کے لیے حال ہی میں قائم کیے گئے سورن ویلتھ فنڈ اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل میں اچھی حکمرانی اور شفافیت کے اصولوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف ٹیم کی نگراں وزیرِ اعظم سے ملاقات
آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بدھ کو نگراں وزیرِ اعظم سے بھی ملاقات کی تھی جس میں وزیرِاعظم نے پاکستان کے ساتھ جاری کام پر آئی ایم ایف کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا تھا۔
ترجمان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اصلاحاتی کوششوں کے لیے حکومت کے مستقل عزم کا اعادہ کیا کیوں کہ ان کا مقصد طویل مدت میں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔
'ڈیل سے ملک کو معاشی استحکام میں مدد اور اصلاحات کرنے کا موقع ملے گا'
معاشی امور کے ماہر اور آئی ایم ایف ڈیل پر نظر رکھنے والے عبداللہ محمد فاروق کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو مجموعی طور پر اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت 1.9 ارب ڈالر مل جائیں گے۔
اس سے معاشی استحکام کو فروغ ملے گا اور بجٹ اور بیرونی ادائیگیوں پر دباو کم ہو گا یوں حکومت کو مالی سال 2024 میں طے کیے گئے اہداف کے حصول میں کسی حد تک آسانی میسر آسکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ فنڈز ملنے سے ملک میں بسنے والے انتہائی غریب افراد کو معاشی تحفظ فراہم کرنے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے نفاذ سمیت دیگر مواقع بھی مل پائیں گے۔
تاہم حکومت کو اس وعدے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا کہ روپے کی قدر کو مصنوعی کے بجائے حقیقی رکھا جائے اس مقصد کے لیے فارن ایکسچینج مارکیٹ میں پہلے کی طرح دخل اندازی سے باز رہا جائے اور اس میں شفافیت کا پہلو برقرار رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قرض کی دوسری قسط کے اجرا سے ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ ملک کے اندر ٹیکس، گورننس اور ریاستی ملکیتی اداروں میں اصلاحات کا نفاذ ممکن بنائے تاکہ بجٹ خساروں کو پُر کیا جا سکے۔
بہتر معاشی کارکردگی یا جیو پولیٹیکل حالات؛ ڈیل کیسے جلد ممکن ہو پائی؟
پولیٹیکل اکانومی پر نظر رکھنے والے ماہر معاشیات شفیق علی کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار پاکستان نے محصولات کا ہدف پورا کیا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو ڈالر کی نئی قیمتوں کے مطابق ایڈجسٹ کیا کیوں کہ کئی برسوں سے یہ سلسلہ رکا ہوا تھا۔
اُن کے بقول پاکستان نے جاری کھاتوں، بجٹ اور تجارتی خسارہ طے شدہ حد کے اندر ہی رکھا جب کہ اسمگلنگ اور قانون کے سخت نفاذ سے حوالہ ہنڈی کو کسی حد تک کنٹرول کیا، ملک سے بیرون ملک کھانے پینے کی اشیا کی اسمگلنگ کسی حد تک کنٹرول کی اور نتائج سامنے ہیں۔
تاہم وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرتے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں کے اجرا میں حکومت کی معاشی پالیسیوں اور بہتر اشاریوں کے علاوہ خطے اور عالمی سیاسی حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کے بھی اثرات پڑتے ہیں۔
اُن کے بقول اس سلسلے میں فنڈ میں قرض دینے والے ممالک کے مفادات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں قرض وصول کرنے والے ممالک کو حقائق سامنے رکھتے ہوئے پسِ پردہ بھی کئی مطالبات تسلیم کرنے پڑتے ہیں جو عام طور پر دہائیوں بعد منظر عام پر آتے ہیں۔
فورم