فیفا ورلڈ کپ 2022 میں فرانس اور مراکش کے سیمی فائنل میں مقابل آنے کو تاریخی واقعہ قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ ماضی میں مراکش پر فرانس کا تسلط قائم تھا۔ لیکن اس تاریخ کے ساتھ سوشل میڈیا پر مراکش کی آزادی کی جدوجہد میں پاکستان کا کردار بھی زیرِ بحث ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام کے بعد مسلم دنیا میں جاری آزادی کی مختلف تحریکوں کی حمایت کی پالیسی اپنائی تھی۔
فلسطینوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ شمالی افریقہ میں مراکش، تیونس، الجزائر کے علاوہ سوڈان اور انڈونیشیا میں جاری آزادی کی تحریکوں کی حمایت بھی پاکستانی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات میں شامل تھی۔
تاریخی پس منظر
شمالی افریقہ کے ان ممالک میں دو بڑی نوآبادیاتی قوتوں فرانس اور برطانیہ کے مفادات تھے۔ یہ دونوں قوتیں عرب دنیا اور شمالی افریقہ کے خطے میں اپنی اجارہ داری بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں تھیں لیکن 1904 میں ان دونوں نے ’کورڈیئل معاہدہ‘ کیا۔
اس معاہدے کے بعد شمالی افریقہ میں فرانس نے مصر پر برطانیہ کے اثر کو تسلیم کرلیا جب کہ مراکش پر فرانس کے اثر و رسوخ بڑھانے کے حق کو تسلیم کرلیا گیا۔
مراکش میں اقتدار کی کشمکش
مراکش جسے عرب دنیا میں المغرب کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں ساتویں صدی میں اسلام پہنچ گیا تھا۔ ادریس بن عبداللہ نے 788 عیسوی میں یہاں بادشاہت قائم کی تھی جو 971 تک برقرار رہی۔
اس کے بعد 1666 میں یہاں علوی خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ بیسویں صدی میں اس خاندان کے درمیان حکمرانی پر اختلاف پیدا ہوا اور 1907 میں مراکش کے سلطان عبدالعزیز کے خلاف ان کے اپنے بھائی عبدالحفیظ نے بغاوت کردی۔
عبدالحفیظ اپنے بھائی کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں مراکش کے شہر طنجہ فرار ہونے پر مجبور کردیا۔
اس وقت تک فرانس مراکش میں کاسابلانکا کی بندر گاہ پر اپنی چوکیاں بنا چکا تھا۔عبد الحفیظ نے 1909 میں فرانس کی ان چوکیوں پر بھی حملہ کیا اور اس کے بعد فاس نامی شہر میں جاکر اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔
انسائیکلوپیڈیا آف بریٹینیکا کے مطابق عبدالحفیظ اچھے حکمران ثابت نہیں ہوئے اور ان کے خلاف جلد ہی بغاوت کا ماحول پیدا ہوگیا جس پر قابو پانے کے لیے انہیں فرانس کی ہی مدد لینا پڑی۔
فرانس نے سلطان کے ساتھ 30 مارچ 1912 کو ’معاہدۂ فاس‘ کیا جس کے تحت مراکش کو 'فرینچ پروٹیکٹوریٹ' یا فرانس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد مراکش پر سلطان کی حکومت برائے نام ہی رہ گئی اور اختیارات فرانسیسی حکام کے پاس چلے گئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد مراکش میں فرانس سے آزادی کی تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا۔ یہاں آزادی کی تحریک چلانے والے قوم پرستوں نے حزبِ استقلال نامی ایک جماعت قائم کی اور عالمی سطح پر اپنا مؤقف سامنے لانا شروع کیا۔
یہ جدوجہد عروج پر پہنچی تو پاکستان نے اسی دور میں مراکش کی استقلال پارٹی کو اقوامِ متحدہ کے عالمی فورم پر اپنا مؤقف پیش کرنے میں مدد فراہم کی جس کا تفصیلی احوال پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ ظفر اللہ خان نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔
مراکشی رہنما کے لیے پاکستانی پاسپورٹ
سن 1951 میں پاکستان نے مراکش، تیونس اور الجزائر کے حقِ خود ارادیت کے سوال کو اقوامِ متحدہ میں زیرِ بحث لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔ جس کے لیے پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور پھر سلامتی کونسل میں بھی ان ممالک کے مؤقف کی بھرپور تائید کی۔
اس سے قبل فرانس مسلسل اپنے زیرِ انتظام ان خطوں کو عالمی فورم پر اٹھانے کی مخالفت کرتا آرہا تھا اور انہیں اپنا داخلی مسئلہ قرار دیتا تھا۔
پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ ظفر اللہ خان اس بارے میں لکھتے ہیں کہ فرانس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے پیرس میں ہونےو الے اجلاس میں تو شمالی افریقہ کے ممالک کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں نہیں آںے دیا۔ لیکن 1952 میں جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس نیویارک میں ہوا تو مراکش کے قوم پرستوں نے پوری قوت کے ساتھ آزادی کا سوال بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
ظفر اللہ خان اپنی خود نوشت ’تحدیثِ نعمت‘ میں لکھتے ہیں:" اسی دوران احمد بالافریج جو مراکش میں حزبِ استقلال کے سیکریٹری تھے اور ملک کی آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش تھے اور جن کے میرے ساتھ گہرے دوستانہ مراسم قائم ہوچکے تھے، وہ مجھے نیویارک میں ملے۔ ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے والی تھی۔ اگر وہ پاسپورٹ کی تجدید یا توسیع کے لیے پیرس یا رباط (مراکش کے دارالحکومت)جاتے تو انہیں اندیشہ تھا کہ انہیں ضرور نظر بند کردیا جائے گا اور وہ نیویارک واپس نہیں آسکیں گے۔"
ظفر اللہ خان کے مطابق احمد بالافریج نے ان سے اس مشکل کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ احمد بالافریج کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کا بلا تنخواہ مشیر برائے اقوامِ متحدہ مقرر کردیا اور ان فرائض کی انجام دہی کے لیے انہیں پاکستانی پاسپورٹ بھی دے دیا۔
پاکستان نے احمد بالا فریج کو جاری کیے گئے اسی پاسپورٹ کی ایک کاپی دسمبر 2021 میں یادگار کے طور پر ان کے بیٹے انیس بالا فریج کو بھی دی۔
فرانسیسی سفیر کا احتجاج
اپنی کتاب تحدیثِ نعمت میں ظفر اللہ خان لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد جب وہ کراچی واپس آگئے تو کچھ روز بعد فرانسیسی سفیر موسیو اوج ان سے ملنے آئے اور کہا کہ فرانس کی حکومت نے انہیں السید احمد بالافریج کو پاکستانی پاسپورٹ دیے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
فرانسیسی سفیر نے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ پاکستانی قوانین کے مطابق پاکستان کی قومیت حاصل کرنے کے لیے ملک میں پانچ سال رہائش رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ احمد بالافریج پانچ منٹ بھی پاکستان میں نہیں رہے۔ بلکہ انہوں نے تو پاکستان کی سرزمین پر کبھی قدم بھی نہیں رکھا۔
اس پر ظفر اللہ خان نے سفیر کو جواب دیا کہ آپ نے قانون کے متن کی عبارت کے ساتھ باریک حروف میں لکھی ایک استثنائی عبارت نہیں پڑھی۔
فرانسیسی سفیر نے اس پر جواب دیا کہ وہاں کچھ لکھا تو ہے لیکن اس کے مطابق بھی حکومت کو اختیار ہے کہ خاص حالات میں رہائش کی شرط کو ترک کرنے کی صورت میں ہی کسی کو شہریت دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں کون سے خاص حالات ہیں؟
اس پر ظفر اللہ خان نے جواب دیا:"سفیر صاحب آپ یہ دریافت کرنے کے مجاز نہیں!"
اس کے بعد فرانس کے سفیر نے مسئلۂ کشمیر سے متعلق بھی ایک دلیل دی کہ اگر وہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی مخالفت کرنے والے لیڈر شیخ عبداللہ کو اپنے وفد میں شامل کرلیں تو پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا؟ اس پر ظفر اللہ خان نے جواب دیاکہ یہ بات ناگوار ضرور گزرے گی لیکن وہ اس بات پر احتجاج کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔
اس کے بعد ظفر اللہ خان نے فرانسیسی سفیر کو بتایا کہ احمد بالافریج یہ خدشہ ظاہر کرچکے تھے کہ اگر ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہوگئی اور اس کی تجدید کے لیے وہ فرانس یا رباط واپس گئے تو انہیں امریکہ واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔
فرانسیسی سفیر سے مخاطب ہو کر ظفراللہ خان نے کہا:"آپ کی آج کی گفتگو سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ان کا خدشہ بجا تھا اور میں نے اچھا کیا کہ انہیں پاسپورٹ دے دیا۔"
پاکستان کے پاسپورٹ کے اجرا کے بعد احمد بالافریج نیویارک میں جاری سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک تو ہوئے لیکن ظفر اللہ خان کے بقول تیونس اور مراکش کی آزادی کے حامی اراکین اس مسئلے کو اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
تاہم آئندہ برس 1952 اور بعد ازاں 1953 میں مراکش میں فرانس کے خلاف شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جسے دبانے کے لیے فرانس نے طاقت کا استعمال بھی کیا۔ دسمبر 1952 میں عرب ریاستیں مراکش کا معاملہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں لانے میں کامیاب ہوگئیں۔ لیکن اس کے بعد بھی مراکش کو آزادی حاصل نہیں ہوئی اور قوم پرستوں کی مزاحمت شدید ہوتی گئی۔
جب حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو فرانس نے مراکش کے اس وقت کے سلطان محمد بن یوسف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا جس کے تحت دو مارچ 1956 کو مراکش فرانس سے آزاد ہوگیا۔
آج موروکو یا مراکش میں دستوری بادشاہت ہےاور وہاں جمہوری طور پر پارلیمنٹ منتخب کی جاتی ہے۔ البتہ ابھی بھی وہاں بادشاہ کو انتظامی اور حکومتی اختیارات حاصل ہیں۔اس کے علاوہ بادشاہ مذہبی، دفاعی اور خارجہ امور پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔
مراکش میں علوی خاندان کے مرد ورثا کو حکومت منتقل ہوتی ہے اور بادشاہ کا بڑا بیٹا اس کی جانشینی کا اولین حق دار ہوتاہے۔ سن 1999 سے محمد ششم مراکش کے بادشاہ ہیں۔
فرانس سے تعلقات متاثر نہیں ہوئے
ظفر اللہ خان لکھتے ہیں کہ شمالی افریقہ کے چار ممالک: الجزائر، تیونس، مراکش اور لیبیا کی جدوجہد آزادی کو پاکستان کی پوری تائید اور گہری ہمدردی حاصل رہی۔ نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ جہاں بھی ممکن ہوا پاکستان نے ان ممالک سے یک جہتی کا مظاہرہ کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ فرانس اس سلسلے میں پاکستان کے اقدامات سے واقف تھا اور اگرچہ پاکستان نے ان ممالک کی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن فرانس کی حکومت میں پاکستان کا وقار بڑھتا ہی گیا۔
تاہم پاکستان میں ظفراللہ خان کو 1951 میں پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا تعلق جماعتِ احمدیہ سے تھا۔ 1954 میں پاکستان میں مذہبی جماعت مجلسِ احرار نے جماعتِ احمدیہ کو اقلیت قرار دینے کی تحریک شروع کردی تھی اور اس تحریک کے مطالبات میں ظفراللہ خان کو منصب سے ہٹانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
اس کے بعد ظفراللہ خان نے وزارتِ خارجہ چھوڑ دی۔ بعد ازاں وہ عالمی عدالتِ انصاف کے جج اور پھر صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ 1961 سے 1964 تک اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب بھی رہے اور اپنے طویل سفارتی کریئر کے بعد 1985 میں لاہور میں انتقال کر گئے۔