عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں جب گھر سے کام کرنے کی اصطلاح روشناس کرائی گئی تو اکثریت کے لیے یہ ایک نیا تجربہ رہا البتہ ٹیلی میڈیسن کے شعبے کے لیے یہ منفرد نہیں تھا کیوں کہ اس میں تمام تر کام آن لائن ہی کیا جا رہا تھا۔
وبا کے دوران جہاں آن لائن سروسز کے استعمال میں اضافہ ہوا وہیں گھر بیٹھے افراد نے علاج کے لیے ٹیلی میڈیسن کا سہارا لیا۔
پاکستان میں 'صحت کہانی' نے آج سے تین برس قبل اپنے سفر کا آغاز کیا تھا البتہ اب یہ دیہی علاقوں میں آن لائن علاج کی سہولت مہیا کرنے والا ملک کا وسیع نیٹ ورک بن چکا ہے۔
یہ نیٹ ورک ان دیہی علاقوں میں کام کرتا ہے جہاں خواتین اس لیے بہتر علاج سے محروم رہ جاتی تھیں کہ انہیں اپنے علاقے سے کہیں دور جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ٹیلی میڈیسن کے ادارے 'صحت کہانی' کی سی ای او ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے حال ہی میں اقوامِ متحدہ کا 'سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز چیلنج' ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار کسی ادارے اور خاتون کو یہ اعزاز ملا ہے۔
اس چیلنج میں ان پانچ خواتین لیڈرز کو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جو ان گولز کے معیار پر پورا اترتی تھیں۔
پاکستانی ڈاکٹر سارہ سعید خرم کو بنیادی صحت کی سہولتوں کی فراہمی، صنفی مساوات، صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کو بہتر کام کے مواقع فراہم کرنے کی کوششوں کے علاوہ کرونا وبا کے دوران کام کو بہتر طور پر سر انجام دینے کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مستقبل میں ہم صلاحیت میں اضافے، فنڈز اور مزید منصوبوں پر کام کرنے کے مواقع ملیں گے۔ ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کی 76 ویں جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے مسائل اور کام کو دنیا بھر کے سامنے پیش کر سکیں گے۔
ٹیلی میڈیسن سے دیہی علاقوں میں کیا تبدیلی آئی؟
ابتدا میں جب دو سے تین کلینکس کھولے گئے تو ان علاقوں کے لوگوں کو یہ طریقۂ کار سمجھ نہیں آیا جب کہ ایک سب سے بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ ان لوگوں کو علاج معالجے کے لیے نیم حکیم یا اتائیوں پر زیادہ بھروسا تھا۔
ڈاکٹر سارہ کے مطابق ایک مہینے میں 10 سے 20 مریض ہی کلینک پر آتے تھے پھر ہم نے وہاں کے لوگوں سے مسلسل رابطے کو بڑھایا اور ان کے مسائل سنے۔
ان کے بقول ہم نے اس کلینک کے لیے ایسی نرسیں ملازمت پر رکھیں جو مریضوں کو اس بات پر رضا مند کر سکیں کہ آپ ڈاکٹر کو دکھائیں اور بیماری کا درست علاج کرائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیس کم رکھی، آگاہی سیشن کرائے یہاں تک کہ گھر گھر جا کر قائل کیا تاکہ لوگ اپنی صحت کو سنجیدگی سے لیں۔
انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو اس سے فائدہ ہونے لگا تو انہوں نے دوسروں سے اس کا ذکر کیا۔ اس طرح مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی اور اب یہ تعداد کبھی کبھار ایک ہزار مریضوں تک بھی جا پہنچتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس کلینک پر دو نرسز رکھنا پڑتی ہیں۔
ان کے کلینکس پر 90 فی صد تعداد ان خواتین اور بچوں کی ہے جو کہیں اور نہیں جا سکتے اور انہیں اب اپنے علاقے ہی میں آن لائن معیاری علاج کی سہولت میسر ہے۔
کلینک پر تمام اسٹاف خواتین پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے آنے والی خواتین مریض خود کو محفوظ اور مطمئن تصور کرتی ہیں۔
ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ ہم نے حال ہی میں دماغی صحت پر بھی کام شروع کیا ہے۔ پاکستان میں 400 سے زائد ماہرِ نفسیات ہیں جن کی فیس کے اخراجات دور دراز علاقوں میں بسنے والے برداشت نہیں کرسکتے اور ان معالجین کا دیہی علاقوں میں کام کرنا بھی مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ اداروں کی مدد سے فیس کم کروا کے مریضوں کو دماغی صحت سے متعلق سہولت بھی دینا شروع کر دی ہے جس میں خواتین مریضوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
صحت کہانی پاکستان کے کن علاقوں میں کام کر رہا ہے؟
ڈاکٹر سارہ کے مطابق ملک بھر میں تین برس کے دوران 200 کمیونٹی اسٹاف کے ساتھ اس وقت 35 کلینکس کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رحیم یار خان سے 100 کلو میٹر دور مچکا ایک ایسی جگہ ہے جہاں نہ کوئی ڈاکٹر ہے اور نہ ہی کوئی اور کلینک۔ محدود ہی سہی لیکن وہاں انٹرنیٹ کے سگلنلز کے ذریعے ہم وہاں کام کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے علاقے مانسہرہ کے قریب بفا اور کنار میں بھی ہمارے کلینکس کام کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں بلوچستان کے لورالائی اور خضدار کے علاقے میں بھی ’صحت کہانی پاکستان‘ کام کر رہا ہے جہاں اس سے پہلے کبھی ٹیلی میڈیسن نے کام نہیں کیا تھا۔
دوسری جانب سندھ کے شہر ٹنڈو الہیار، سکھر اور لاڑکانہ کے دیہی علاقوں میں بھی یہ کلینکس کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ کے مطابق سیہون سے قریب سن ایک ایسی جگہ ہے جس کے 200 کلو میٹر تک کوئی اسپتال نہیں ہے اور ہم وقت کے ساتھ ساتھ ایسی کئی جگہوں پر کام کر رہے ہیں جو دشوار گزار ہیں لیکن یہاں انٹرنیٹ موجود ہونا ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ تمام جگہوں کی فیس پچاس روپے ہی رکھی گئی ہے جب کہ کچھ ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں نرسز سو روپے فیس وصول کرتی ہیں۔
صحت کہانی میں کون سی خواتین ڈاکٹرز کام کر رہی ہیں؟
ڈاکٹر سارہ سعید کے مطابق صحت کہانی کا نیٹ ورک پانچ ہزار ڈاکٹرز پر مشتمل ہے جن میں سے 40 فی صد وہ خواتین ڈاکٹرز ہیں جو شادی کے بعد پریکٹس نہیں کر رہی تھیں۔ یہ ڈاکٹرز بیرونِ ملک سے بیٹھ کر اپنی سروسز فراہم کر رہی ہیں۔
ان کے مطابق صحت کہانی میں کچھ ایسی خواتین ڈاکٹرز بھی ہیں جو اولاد ہونے کے بعد کام سے وقفہ لے چکی ہیں اور اب دوبارہ فرائض سرانجام دینا شروع کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر سارہ سعید کے مطابق "ہم نے آہستہ آہستہ ماہرین اور دیگر معالجین کو اس نیٹ ورک کا حصہ بنایا تا کہ صحت کے معیار کو بلند کیا جا سکے۔"
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے سینئرز اور ماہرین کے ذریعے ان خواتین ڈاکٹرز کی ٹریننگ بھی کرائی ہے جو گھر سے بیٹھ کر کام کر رہی ہیں۔
ان کے بقول ان کے پاس 50 کے قریب مرد ڈاکٹرز بھی ہیں کیوں کہ کام کے دوران بعض اوقات مرد مریض خواتین ڈاکٹر سے بات کرنے میں ہچکچاتے ہیں تو اس کے لیے ایک مرد معالج کا ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹر سارہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے کسی ناخوشگوار صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے بھی مرد ڈاکٹرز رکھے ہیں۔
صحت کہانی نے کرونا کی وبا کے دوران کیسے کام کیا؟
ڈاکٹر سارہ کے مطابق ہم شروع ہی سے آن لائن کام کر رہے تھے اور کرونا وبا کے دوران علاج کا یہ طریقہ مزید کار آمد ثابت ہوا۔
ان کے بقول صحت کہانی کا نیٹ ورک کم آمدنی والی برادریوں میں کام کر رہا ہے جب کہ موبائل ایپ ڈاون لوڈ کر کے بھی ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران ایسے مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا جو گھروں میں محدود تھے اور علاج معالجے کی سہولت حاصل چاہتے تھے۔
ڈاکٹر سارہ کے مطابق اس سلسلے میں این سی او سی اور حکومت کی پارٹنر شپ کی مدد سے بھی ان کے ادارے کو آن لائن کنسلٹنسی فراہم کرنے کا موقع ملا اور یہ کرونا کی علامات ظاہر ہونے پر رہنمائی فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے مطابق صحت کہانی نے چھ ماہ کے دوران 75 ہزار افراد کو آن لائن علاج کی سہولت دی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے ساتھ مل کر ٹیلی آئی سی یو کا قیام بھی کیا ہے جو آئی سی یوز میں ایپ کے ذریعے مدد فراہم کر رہا تھا۔
ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ کیوں کہ ملک بھر میں آئی سی یوز چلانے والے ماہرین کی تعداد محدود ہے تو انہوں نے اپنے ماہرین کے ذریعے جونئیرز ڈاکٹرز کی مدد کی اور ان کی ایپ چاروں صوبوں کے ساٹھ آئی سی یوز میں چلی جس نے وہاں موجود ڈاکٹرز کو بہت مدد فراہم کی۔