کراچی —
پاکستان کو سال 2010ء سے 2012ء تک مسلسل تین بار سیلابوں اور تباہ کن بارشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب جبکہ بارشوں کے باقاعدہ آغاز میں صرف 2 مہینے رہ گئے ہیں ماہر ِموسمیات اس سال بھی معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کررہے ہیں۔
اس صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے کہ مسلسل تین سیلابوں سے ہونے والی تباہی کے بعد ملک میں چوتھے متوقع سیلاب سے بچانے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟
سندھ میں یوایس ایڈ کے ہمراہ کام کرنے والے ادارے ’رورل سپورٹ پروگرام نیٹ ورک‘ کے چیف ایگزیکٹو افسر خلیل ٹیٹلی کے مطابق 2010کے سیلاب کے بعد سے اب تک حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ سرکاری و امدادی اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔شدید بارشوں سے اس سال بھی سیلاب آئے گا یا نہیں اس کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے تاہم اگر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور کمیونٹی کی بنیاد پر تیاریاں مکمل کرلی جائیں تو بہت سے نقصان سے بچا جا سکتا ہے خصوصاً انسانی جانوں کے ضیاع کو بہت حد تک روکا جاسکتا ہے۔
یورپی خبر رساں ادارے انٹی گریٹییڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورک کے مطابق حالیہ برسوں میں ملک میں آ نے والے سیلاب سے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔ سیکڑوں مکانات تباہ ہوگئے، لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار اور علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر ہجرت کرنا پڑی جبکہ ملکی معیشت کو سب سے زیادہ دھچکہ زراعت کے شعبے میں ہونے والی تباہی سے پہنچا۔
2012ء میں آنے والے سیلاب سے تینوں صوبوں میں 650,000 گھروں کو نقصان پہنچا اور 485623 ہیکٹر زمین متاثر ہوئی جبکہ 12000جانور بھی ہلاک ہوگئے۔ تاہم ان سیلابوں کی تباہ کاریاں برداشت کرنے کے بعد سیلاب سے نمٹنے اور امدادی کارروائیوں کو تیز کرنے کا عمل بہتر ہوا۔
حفاظتی اقدامات
تباہی کے امکانات کو کم کرنے کے لئے بہت سے شعبوں میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔جس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر ِ نو او ر انفرااسٹرکچر کی بحالی بھی شامل ہے۔ان اقدامات کی اہمیت سیلاب کی نوعیت کا جائزہ لینے کے بعد اور بھی بڑھ گئی۔
سن 2010 میں سیلابی پانی میں ملک کا بیس فیصد رقبہ ڈوب گیا تھا۔ سیلاب آنے کی وجوہات میں طوفانی بارشیں، نہروں اور بندوں کے پشتوں کا ٹوٹنا اور سیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونا شامل تھیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ بہتر بنا کر موسم کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے سے وابستہ سیف اللہ بلو کے مطابق شمالی سندھ کے بہت سے علاقوں میں 2012ء کی بارشوں میں بکاسی ِ آب کا سسٹم کام ہی نہیں کرسکا جس کی وجہ سے متعدد علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ ڈرینج سسٹم کو بہتر بنایا گیا ہے اور اور اس کی تعمیر ِنو کی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال سے بچا جا سکے۔
ڈی ایم اے نے نہروں اور دریاؤں اور بندوں کے کنارے مضبوط بنانے پر بھی توجہ دی ہے۔ مختلف ٹیمیں ایسے علاقوں میں پانی کی نکاس کے لئے راستے بنانے میں مصروف ہیں جہاں پانی بھرنے کا خطرہ ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان ارشاد بھٹی کے مطابق اس سال بھی سیلاب کا خدشہ موجود ہے۔ لوگوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ نشیبی علاقوں میں گھر تعمیر نہ کریں اور نہ ہی دریا اور پانی کے دوسرے ذخیروں کے کنارے مکان بنائیں۔ بہت سے مکانات اس وجہ سے تباہ ہوئے کہ وہ پانی کے ذخیروں کے کنارے بنائے گئے تھے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لئے مکمل اور مربوط تیاریاں ہی اصل میں بہترین حکمت ِعملی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور اسکی پیشگی تیاری ہے۔ یو این ڈیولپمنٹ پروگرام کے مطابق قدرتی آفات سے قبل اس سے بچاؤ کے طریقوں پر اگر ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے تو تباہی آنے کے بعد کے کاموں پر سات ڈالرز کا خرچا آتا ہے۔
پاکستان میں طوفانی بارشوں سے نبرد آزما ہونے اور ایمرجنسی ریلیف آپریشن کو مزید موثر کرنے کے لئے امدادی کارکنوں کی کوشیں جارہی ہیں۔
تقریباً 69ملکوں اور این جی اوز کے الائنس ”ڈی آر آر فورم“ کی عہدیدار شاہدہ عارف کاکہنا ہے کہ، ’قدرتی آفات کے بعد بحالی کے لئے رقم فراہم کرنے والی امدادی تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ ڈی آر آر کو زیادہ سے زیادہ فعال بنایا جائے۔ ان کے خیال میں آفات کے بعد رقم خرچ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے تیاری پہلے ہی مکمل کر لی جائے۔‘
انٹی گریٹییڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورک کے مطابق سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا کرنے کی تیاری اگر موثر انداز میں نہ کی جائے تو ان کے اثرات سالوں تک قائم رہتے ہیں۔مثلاً فصلوں کی آمدنی پر گزر بسر کرنے والے کسان کی زمین پانی کی نظر ہو جانے کے بعد اس کے لئے معمول کی زندگی بحال کرنا ایک کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔
اس صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے کہ مسلسل تین سیلابوں سے ہونے والی تباہی کے بعد ملک میں چوتھے متوقع سیلاب سے بچانے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟
سندھ میں یوایس ایڈ کے ہمراہ کام کرنے والے ادارے ’رورل سپورٹ پروگرام نیٹ ورک‘ کے چیف ایگزیکٹو افسر خلیل ٹیٹلی کے مطابق 2010کے سیلاب کے بعد سے اب تک حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ سرکاری و امدادی اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔شدید بارشوں سے اس سال بھی سیلاب آئے گا یا نہیں اس کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے تاہم اگر وفاقی و صوبائی حکومتوں اور کمیونٹی کی بنیاد پر تیاریاں مکمل کرلی جائیں تو بہت سے نقصان سے بچا جا سکتا ہے خصوصاً انسانی جانوں کے ضیاع کو بہت حد تک روکا جاسکتا ہے۔
یورپی خبر رساں ادارے انٹی گریٹییڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورک کے مطابق حالیہ برسوں میں ملک میں آ نے والے سیلاب سے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔ سیکڑوں مکانات تباہ ہوگئے، لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار اور علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر ہجرت کرنا پڑی جبکہ ملکی معیشت کو سب سے زیادہ دھچکہ زراعت کے شعبے میں ہونے والی تباہی سے پہنچا۔
2012ء میں آنے والے سیلاب سے تینوں صوبوں میں 650,000 گھروں کو نقصان پہنچا اور 485623 ہیکٹر زمین متاثر ہوئی جبکہ 12000جانور بھی ہلاک ہوگئے۔ تاہم ان سیلابوں کی تباہ کاریاں برداشت کرنے کے بعد سیلاب سے نمٹنے اور امدادی کارروائیوں کو تیز کرنے کا عمل بہتر ہوا۔
حفاظتی اقدامات
تباہی کے امکانات کو کم کرنے کے لئے بہت سے شعبوں میں سرمایہ کاری ضروری ہے۔جس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر ِ نو او ر انفرااسٹرکچر کی بحالی بھی شامل ہے۔ان اقدامات کی اہمیت سیلاب کی نوعیت کا جائزہ لینے کے بعد اور بھی بڑھ گئی۔
سن 2010 میں سیلابی پانی میں ملک کا بیس فیصد رقبہ ڈوب گیا تھا۔ سیلاب آنے کی وجوہات میں طوفانی بارشیں، نہروں اور بندوں کے پشتوں کا ٹوٹنا اور سیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونا شامل تھیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ بہتر بنا کر موسم کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے سے وابستہ سیف اللہ بلو کے مطابق شمالی سندھ کے بہت سے علاقوں میں 2012ء کی بارشوں میں بکاسی ِ آب کا سسٹم کام ہی نہیں کرسکا جس کی وجہ سے متعدد علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ ڈرینج سسٹم کو بہتر بنایا گیا ہے اور اور اس کی تعمیر ِنو کی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال سے بچا جا سکے۔
ڈی ایم اے نے نہروں اور دریاؤں اور بندوں کے کنارے مضبوط بنانے پر بھی توجہ دی ہے۔ مختلف ٹیمیں ایسے علاقوں میں پانی کی نکاس کے لئے راستے بنانے میں مصروف ہیں جہاں پانی بھرنے کا خطرہ ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان ارشاد بھٹی کے مطابق اس سال بھی سیلاب کا خدشہ موجود ہے۔ لوگوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ نشیبی علاقوں میں گھر تعمیر نہ کریں اور نہ ہی دریا اور پانی کے دوسرے ذخیروں کے کنارے مکان بنائیں۔ بہت سے مکانات اس وجہ سے تباہ ہوئے کہ وہ پانی کے ذخیروں کے کنارے بنائے گئے تھے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لئے مکمل اور مربوط تیاریاں ہی اصل میں بہترین حکمت ِعملی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور اسکی پیشگی تیاری ہے۔ یو این ڈیولپمنٹ پروگرام کے مطابق قدرتی آفات سے قبل اس سے بچاؤ کے طریقوں پر اگر ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے تو تباہی آنے کے بعد کے کاموں پر سات ڈالرز کا خرچا آتا ہے۔
پاکستان میں طوفانی بارشوں سے نبرد آزما ہونے اور ایمرجنسی ریلیف آپریشن کو مزید موثر کرنے کے لئے امدادی کارکنوں کی کوشیں جارہی ہیں۔
تقریباً 69ملکوں اور این جی اوز کے الائنس ”ڈی آر آر فورم“ کی عہدیدار شاہدہ عارف کاکہنا ہے کہ، ’قدرتی آفات کے بعد بحالی کے لئے رقم فراہم کرنے والی امدادی تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ ڈی آر آر کو زیادہ سے زیادہ فعال بنایا جائے۔ ان کے خیال میں آفات کے بعد رقم خرچ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے تیاری پہلے ہی مکمل کر لی جائے۔‘
انٹی گریٹییڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورک کے مطابق سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا کرنے کی تیاری اگر موثر انداز میں نہ کی جائے تو ان کے اثرات سالوں تک قائم رہتے ہیں۔مثلاً فصلوں کی آمدنی پر گزر بسر کرنے والے کسان کی زمین پانی کی نظر ہو جانے کے بعد اس کے لئے معمول کی زندگی بحال کرنا ایک کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔