پاکستان میں حالیہ دنوں میں ایک نجی یونیورسٹی کے احاطہ میں ایک لڑکی کے لڑکے کو شادی کی پیشکش کرنے اور پھول پیش کرتے ہوئے اظہارِ محبت کا معاملہ پر سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔
گزشتہ ہفتے یونیورسٹی آف لاہور کی حدود میں دیگر طلبہ کے سامنے ایک طالبہ نے ساتھی طالبِ علم کو مبینہ طور پر شادی کی پیشکش کی تھی جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی۔ اس واقعے کے بعد اس طالبہ اور طالبِ علم کا نجی یونیورسٹی سے اخراج کر دیا گیا۔ البتہ اب پاکستان کی انسانی حقوق کی وزارت نے پنجاب کے گورنر اور اس نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے دونوں طلبہ کا داخلہ بحال کرنے کی سفارش کی ہے۔
قبل ازیں بعض وفاقی وزرا بھی اس لڑکی اور لڑکے کی حمایت میں سامنے آ چکے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی اور وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل نے بھی طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالے جانے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ شوبز سے وابستہ کئی مشہور شخصیات نے بھی طلبہ کی حمایت کی تھی۔
'یونیورسٹی کے شدید ردِ عمل سے طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے'
جمعرات کو پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی نے گورنر پنجاب اور وائس چانسلر یونیورسٹی آف لاہور کو لکھے گئے خط میں قرار دیا ہے کہ دو طلبہ کا ایک دوسرے کو شادی کی پیشکش کرنا ناجائز نہیں ہے۔ دونوں کا جامعہ میں داخلہ ممنوع کرنے سے قبل ان کا مؤقف لینا ضروری تھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جو ان دونوں کے حقوق کی پامالی ہے۔
پارلیمانی سیکریٹری نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اخلاقی اقدار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اتنا سخت ایکشن لینے کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کے اس شدید ردِ عمل کی وجہ سے دونوں طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
انہوں نے یونیورسٹی میں مشاورتی سینٹرز کے قیام کی تجویز بھی دی ہے۔
لال چند ملہی نے کہا ہے کہ ایک دوسرے کو شادی کی پیشکش کرنے کا حق آئینِ پاکستان اور اقوامِ متحدہ کے معاہدوں کے مطابق ہے۔ لیکن یونیورسٹی آف لاہور کے اقدام سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے اچھا پیغام نہیں گیا۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق نے طلبہ کا داخلہ فوری طور پر بحال کرنے کی سفارش کی ہے۔
ضابطۂ اخلاق کمیٹی میں طلبہ کی عدم پیشی، رجسٹرار کا نوٹس
واضح رہے کہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی آف لاہور کے رجسٹرار کے دستخط کردہ نوٹس کے مطابق طالبہ اور طالبِ علم کو جامعہ سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ جب کہ ان کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
رجسٹرار کے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ جامعہ کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر 12 مارچ 2021 کو صبح ساڑھے 10 بجے دونوں طلبہ کو اسپیشل ڈسپلنری کمیٹی نے طلب کیا تھا تاہم ان کے بقول دونوں طالبعلم کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
نوٹس کے مطابق کمیٹی نے کیمپس کے لیے مروجہ عمومی قواعد اور ضابطۂ اخلاق کی شق نمبر نو کے تحت قوانین اور ضابطۂ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی پر دونوں طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔
کیمپس کے جنرل ڈسپلن رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ کے سیکشن نمبر 16 کے تحت نکالے گئے طلبہ آئندہ یونیورسٹی یا اس کے کسی بھی کیمپس میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
'توقع نہیں تھی یونیورسٹی انتظامیہ کا اس طرح ردِ عمل سامنے آئے گا'
اس حوالے سے طالبہ اور طالبِ علم سے ان کا مؤقف جاننے کی متعدد بار کوشش کی گئی۔ البتہ وہ دونوں سوشل میڈیا پر تو موجود ہیں۔ البتہ کسی بھی قسم کا مؤقف دینے کے لیے بات چیت سے گریز کر رہے ہیں۔ واقعے کے بعد 13 مارچ کو لڑکی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں یونیورسٹی سے نکالے جانے کا خط لگایا اور کہا کہ اگر ہماری وجہ سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو ہم معذرت چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اس وجہ سے شادی کی پیشکش کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ ان کی ویڈیو اس طرح وائرل ہو گی اور یونیورسٹی انتظامیہ کا اس طرح ردِ عمل سامنے آئے گا۔
اس ٹوئٹ کے بعد بھی دونوں کی ٹوئٹس آ رہی ہیں جن میں سے بیشتر میں وہ اپنی حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بحث میں حق اور مخالفت میں آرا
اس معاملے پر بحث میں مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ دونوں طلبہ کا بطور ایک بالغ شہری اپنے فیصلے کرنا کوئی بری بات نہیں ہے اور اگر اس کا وہ سرِ عام اظہار کر رہے ہیں تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
البتہ کچھ لوگ یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ پاکستان کے معاشرے کی روایات کے برخلاف عمل معاشرے میں برائیوں کو جنم دے گا۔ اس سوچ کے حامل افراد کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس سے ان بچیوں کی تعلیم متاثر ہو گی جنہیں سخت جدوجہد اور مشکل حالات میں اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ملتی ہے۔
شادی کے لیے لڑکی سے لڑکے کا ہاتھ مانگنے میں کیا غلطی تھی؟
اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار محمل سرفراز کہتی ہیں کہ جامعات وہ جگہ ہیں جہاں بالغ طالب علم اپنی آئندہ کی زندگی گزارنے کے طریقے اور فیصلے خود کرنا سیکھتے ہیں۔ ان کے بقول جب آپ صاحبِ اختیار ہوں تو دوسروں پر اپنی اخلاقیات مسلط کرنا بھی درست نہیں ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ شادی کے لیے لڑکی سے لڑکے کا ہاتھ مانگنے میں کیا غلطی تھی؟
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو طلبہ کو تعلیمی ادارے سے نکالنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ کیوں کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
'اپنی مرضی سے شادی کرنا ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے'
وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے یونیورستی سے نکالے گئے دونوں طلبہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اپنی مرضی سے شادی کرنا ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے۔
فواد چوہدری مذہب کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے مرضی کی شادی ان حقوق میں مرکزی حیثئیت رکھتی ہے۔ لڑکیوں کو ملکیت سمجھنا اسلام کے خلاف ہے۔
انہوں نے یونیورسٹی آف لاہور کی انتظامیہ کو تجویز دی کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔
فواد چوہدری کے سوشل میڈیا پر اس تبصرے پر لگ بھگ ساڑھے چار ہزار سے زائد لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا جن میں سے ان کے حق اور مخالفت میں رائے شامل تھی۔
'معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے'
محمل سرفراز کہتی ہیں کہ ایک معاشرے کی حیثیت سے، جب آزادی کی بات آتی ہے تو ہم انتہائی عدم برداشت کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن میں ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز پر قدغن سے لے کر تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر لباس پہننے کے طریقوں پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔
ان کے مطابق اداروں کا خیال ہے کہ جب بنیادی آزادیوں کی بات ہو تو وہ اختیارات کا استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ آئین نے آزادی دی ہے تو کوئی ان پر کیسے پابندی لگا سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ نوجوان کو آزمائش اور غلطی سے سیکھنے کے لیے موقعے دیے جاتے ہیں۔ جامعات طلبہ پر اپنی مرضی کی باتوں کا نفاذ نہ کریں۔ طلبہ کے پاس یونینز نہیں ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں طلبہ کو کچھ سیکھنے کا موقع کیسے ملے گا۔
مقامی میڈیا میں شادی کی خبریں
یونیورسٹی آف لاہور سے نکالے گئے طالبہ اور طالب علم کے بارے میں پاکستان کے میڈیا میں یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ یہ باضابطہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے ہیں۔ البتہ اس بات کی تصدیق اب تک نہیں ہو سکی۔
طالبہ نے ایک مقامی اخبار شائع شدہ خبر ری-ٹوئٹ کرتے ہوئے اس پر جزاک اللہ خیر لکھ کر جواب دیا ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر طلبہ نے انتظامیہ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی تو اس پر غور کیا جائے گا۔