پاکستان کے ایک معروف انگریزی اخبار نے وزیر اعظم عمران خان سے متعلق کارٹون شائع کرنے پر ردعمل آنے کے بعد متعلقہ کارٹونسٹ کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔
اخبار میں 25 ستمبر بدھ کو شائع ہونے والے کارٹون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریند مودی ایک بگھی میں سوار ہیں جس کے آگے گھوڑے کی جگہ عمران خان کو جتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ امریکی صدر کے ہاتھ میں ایک چابک ہے جس کے آگے ایک گاجر لٹکی ہوئی ہے اور اوپر ’میڈییئیشن‘ یعنی ثالثی کے الفاظ بھی درج ہیں۔
خیال رہے کہ یہ کارٹوں عمران خان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد شائع ہوا تھا جس کے دو روز بعد وزیر اعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب بھی کرنا تھا۔
انگریزی روزنامے 'دی نیشن' نے خاکے کی اشاعت کے اگلے روز ہی وضاحت کی تھی کہ مذکورہ کارٹون کی تخلیق ادارے کی ادارتی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتی جب کہ اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر شائع ہونے کو غیر مناسب قرار دیتے ہوئے قارئین سے معذرت بھی کی۔
ادارے نے اخبار کے اس صفحے کو جس مذکورہ کارٹون شائع ہوا تھا، اپنی ویب سائٹ سے بھی ہٹا لیا ہے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کارٹون کو جارحانہ اور غیر مناسب قرار دیتے ہوئے اخبار کی جانب سے اس کی شائع ہونے پر فوری ردعمل کو سراہا ہے۔
پاکستان یونین آف کارٹونسٹس نے حکومتی دباؤ کے نتیجے میں اخبار کی جانب سے خالد حسین کے خاکے شائع نہ کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دان تنقید اور کارٹونسٹ کے طنز سے بالا نہیں ہیں۔
کارٹونسٹ خالد حسین کہتے ہیں کہ انہیں ادارے کی جانب سے کام سے روک دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کچھ عرصہ تک ان کے کارٹون اخبار میں شائع نہیں ہوں گے۔
خالد حسین کے بقول اس کچھ عرصے سے مراد کیا ہے یہ نہیں بتایا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 1989 سے صحافت سے وابستہ ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی تخلیقی آزادی پر پابندی لگائی گئی ہو یا کسی کارٹون کے شائع ہونے پر کام سے روکا گیا ہو۔
خالد حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی صورت حال اور صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیش کش کے تناظر میں یہ کارٹون تخلیق کیا تھا تاہم اسے وزیر اعظم یا حکومت کی تضحیک کے طور پر لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کارٹون کی اپنی زبان ہوتی ہے جس میں کارٹونسٹ صورت حال کو بڑھا چڑھا کر اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتا ہے اور تب ہی لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔
خالد حسین نے بتایا کہ کارٹونسٹ تصویر کشی نہیں کرتا بلکہ اسے یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ معاملے کو بڑھا چڑھا کہ بیان کرے۔ تنقیدی پہلو اٹھانے والوں کو اس بات کو سمجھنا چاہیے۔
صحافی رہنما شہر یار خان کہتے ہیں کہ ماضی میں صحافیوں کے کالم چھپنے سے روکے جاتے رہے ہیں۔ ٹی وی اینکرز کے ریکارڈ شدہ پروگرام نشر نہیں ہونے دیے گئے لیکن کسی حکومت نے کسی کارٹونسٹ پر پابندی نہیں لگائی۔
ان کے بقول یہ آزادی اظہار پہ پابندی سے بڑھ کر ہے۔
واضح رہے کہ صحافتی تنظیمیں اور حزب اختلاف کی جماعتیں صحافتی اداروں پر دباؤ اور غیر اعلانیہ سینسر شپ کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں۔
صحافی منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں کارٹونسٹ کو اظہار خیال کی تخلیقی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ماضی میں اس بنیاد پر کسی کارٹونسٹ کو نوکری سے برطرف کرنے کی مثال نہیں ملتی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد اگر ان پر صحافیوں نے تنقید کی تو وہ ان کی مذمت نہیں کریں گے بلکہ سراہیں گے کیونکہ صحافت ہی کے ذریعے حکومت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سمت درست ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن پابندیوں کا آج کل میڈیا کو سامنا ہے ماضی میں آمریت کے ادوار میں دیکھی جاتیں تھیں۔
منیزے جہانگیز کا کہنا تھا کہ کارٹون کے اس معاملے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت معمولی تنقید اور طنز بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔